انٹرنیٹ کے نوجوانوں پر پڑنے والے مثبت اور منفی نقصانات

انٹرنیٹ دراصلعالمی سطح پر پھیلا ہوا کمپیوٹروں کا ایک جال ہے جس میں کروڑوں کمپیوٹر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور جب آپ اپنا کمپیوٹر انٹرنیٹ سے جوڑتے ہیں تو آپ بھی اس جال کا ایک حصہ بن جاتے ہیں اور اب آپ اس جال سے جڑے ہوئے دوسرے کمپیوٹر سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور بھیج سکتے ہیں آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہے ہر شخص اس سے جڑ سکتا ہے اور اس میں اپنی مرضی سے ڈیٹا کا اضافہ کر سکتاہے۔ انٹرنیٹ کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے لیپ ٹاپ اور وائی فائی جیسی ٹیکنالوجی ہے اور اس سے بھی آسان اور سستی ٹیکنالوجی یعنی ٹو جی اور تھری جی ہے جس کے ذریعہ موبائل میں انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے۔انٹرنیٹ موجودہ زمانے کی سب سے اہم ایجاد ہے۔جس کا وجود انسان کی مزیدترقی اور معلومات کی فراہمی کے لیے ناگزیر ہے۔ ہر شئے کا استعمال کارآمد تب ہی ہو سکتا ہے جب اس کا استعمال صحیح وقت اور ٹھیک مقدار میں ہو۔ چنانچہ اگر انسان کی نیت صحیح ہے او ر اس کو مفید معلومات حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے انٹرنیٹ بہت ہی مفید ہے مگر اس کی نیت صحیح نہ ہو تو غلط اورغیراخلاق موادکی بھی انٹرنیٹ پر بھرمار ہے۔

انٹرنیٹ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اگرچہ ہم مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے ہیں جب کہ کسی زمانے میں ہم لوگ سائنس کے میدان میں یورپ والوں سے آگے تھے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم ای میل،ای کامرس،ای بزنس،آن لائن تعلیم،فاصلاتی تعلیم،آن لائن ایگزامز، یونیورسٹی، کمپنی کی معلومات، اشیاء،اخبار و رسائل و جرائد،فلاحی و زرعی تنظیمیں،سیاسی پارٹیوں کے بار ے میں معلومات،بینکنگ اور تمام طرح کے بلوں کی ادائیگی، طبی و سائنسی معلومات،شریعت کے احکام و مسائل اور قرآن و حدیث کو سمعی و بصری شکل میں حاصل کر سکتے ہیں۔ اور انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے، فلمیں،بے حیائی کے مناظر،اشتہارات کے نام پر بے پر دگی و عریانیت،بت پرستانہ و مشرکانہ رسوم،معاشی دھاندلیاں،رقومات کی دھوکے سے منتقلی، نجی معلومات کی فریب دہی، جلد دولت مند بننے کے چکر میں دھوکہ دہی، فریب دہی کے نئے نئے طریقے، دھمکی آمیز پیغامات کی ترسیل اور فحش پیغامات و فحش مواد دوسروں کوبھیجناوغیرہ ہے۔یہ کانوں اور آنکھوں دونوں کی لذت کا سامان مہیا کرتا ہے اس لیے لوگ اس کے دلدادہ ہیں۔اوراسی بے حیائی کی وجہ سے نمازیں بے اثر ہوتی جا رہی ہیں۔جب کہ نماز تو بے حیائی سے روکتی ہے۔

اس ایجاد کا منفی پہلو یہ ہے اس کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ آج زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر بے حیائی و فحش فلموں اور ویڈیوز کی بات کی جائے تو اس کو دیکھنا،سننا اور پسند کرنا بھی حرام ہے۔انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکیوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر کاری ضرب لگتی ہے چنانچہ اس سلسلے میں والدین کو ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے کہ بیٹا یا بیٹی انٹرنیٹ پر کیاکیا دیکھ رہے ہیں۔ایک عجیب بات ہے کہ کمپیوٹر گھروں میں عموما ایک کونے اور آڑ میں رکھا ہوتا ہے۔ رات رات بھر کمپیوٹرچلتا رہتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ پڑھائی ہو رہی ہے جب کہ عموما پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے اور نہ والدین کو توفیق ہوتی ہے کہ وقتا فوقتا اس کو چیک کرتے رہیں۔ یامخصوص فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹوں کو بند کرا دیں۔بہتر ہوگاکہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس’معلوماتی ہائی وے‘ پر تنہا نہ چھوڑیں۔جب معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ہوش آتا ہے۔

اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم و بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔کیونکہ ہمارے پاس اس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے۔تعلیم، تجارت اور سیاست ہر جگہ اس سے استفادہ کیا جارہا ہے۔نئی نسل اس کرشماتی ٹیکنالوجی کو خوب استعمال کررہی ہے۔ انٹرنیٹ کے فوائد اور اس کی فراہم کردہ سہولتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک مفید ایجاد ہے لیکن غلط استعمال سے ایک مفید ذریعہ معلومات خرابیوں کا سرچشمہ بھی بنتا جارہا ہے۔ اس سے گوناگوں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اس کے برے اثرات سے بچنے کی تدابیر نہیں کی گئیں تو انسانیت کو زبردست خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ٹیکنالوجی سے فائدہ ضرور حاصل کیجیے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح اور غلط استعمال کے فوائد اور نقصانات کو بھی پیش نظر رکھیں اور اچھے لوگوں کی صحبت میں رہیے۔

Muhammad Usama
About the Author: Muhammad Usama Read More Articles by Muhammad Usama: 14 Articles with 13454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.