ہائی کورٹ کے فیصلہ میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور موسم گرما کی تعطیلات

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا ذکر آجکل یوں ہوتا ہے کہ جیسے اِنکے بغیر سانسیں جسم کا ساتھ نہ دے سکیں گی فیس بک ،وٹس اپ ،ٹویٹرپر کیے گئے میسجز کا حوالہ پرنٹ الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والی خبروں میں بھی باقاعدگی سے ہوتا رہتا ہے آگاہی اور مثبت سرگرمی کے لیے تو یہ قابل ستائش نیٹ ورکس ہیں لیکن ہمارے ہاں جس طرح نوجوان خاص طور پر طالب علم اِس کے دیوانے بنے ہیں وہ انتہائی تشویش کی بات ہے اِن سائٹس پر اکثرجس قسم کے خیالات اور تبصرے پڑھنے ،دیکھنے ،سننے کو ملتے ہیں اِن سے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم مادر پدر آزاد اور اخلاقیات کا جنازہ نکال چکے ہیں کسی کی بھی عزت ،احترام کا تصور آپکو یہاں کم کم ہی ملے گا خاص طور پر سیاست پر جو تبصرے کیے جاتے ہیں وہ تو اکثر کسی کی عزت کاجنازہ نکالنے سے کم نہیں ہوتے ،سانچ کے قارئین کرام!میرے آج کالم لکھنے کا مقصد سوشل میڈیا پر بحث کرنا ہر گز نہیں ہے بات دراصل یوں ہے کہ اکثر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بعض اوقات ایسی پوسٹ بھی دیکھنے ،پڑھنے ،سننے کو ملتی ہیں کہ اُن پر سیر حاصل بات کی جا سکتی ہے ایک ایسی ہی پوسٹ چند دن سے گردش کر رہی ہے کہ جس کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کے والدین کو ماہ جون ،جولائی کی فیسیں جمع نہ کروانے کی سہولت دینے کے ساتھ ساتھ کسی بھی طالب علم سے زبردستی سکول انتظامیہ کی جانب سے فیسوں کی وصولی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا ہے خلاف ورزی کی صورت میں سکول کو بلیک لسٹ بھی قرار دیا جائے گا فیصلہ نمبر جو اکثر پوسٹ پر لکھا گیا ہے وہ قارئین کرام کے لیے درج کر رہا ہوں High Court Order cp.no5812 of 2015 so(G-111)SE2L/PS/HC/3-859/18 Date 05-03-2018 اسطرح کی پوسٹ سوشل میڈیا پرجو عام و خاص میں آگاہی کا سبب بنے قابل تعریف ہے ،بات ہو جائے پرائیویٹ سکول کے بچوں سے ماہ جون ،جولائی کی فیسوں کے بارے تو یہاں یہ ذکر بھی ضرور کردوں کہ ہمارے ہاں کسی بھی شعبہ میں کوئی چیک اینڈ بیلنس کا عملی انتظام موجود نہ ہے کسی بھی ادارے کے قواعد وضوابط بنانے والے اِن کو تحریر ضرور کرتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے شعبہ تعلیم بھی اِن میں سے ایک ہے وطن عزیز میں پرائیویٹ تعلیم دینے والے اداروں کے اپنے اپنے نصاب اور اپنے اپنے زریعہ تعلیم ہیں ایک ہی شہر میں کھلے ادارے اپنا اپنا نصاب اپنے اپنے انداز سے بچوں کو پڑھا رہے ہیں حکومت کے اداروں کا اپنا نصاب اور اپنا زریعہ تعلیم ہے بات ہمیں آج زریعہ تعلیم پر بھی نہیں کرنی اور نہ مختلف سکولوں کے نصاب پر سوچنا تو صرف یہ ہے کہ کیا ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر عمل درآمد ہوسکے گا تو معذرت کے ساتھ مجھے اس فیصلہ کے بارے جب الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ سے پتا چلا تھا تو میں اس سوچ میں گم ہوگیا تھا کہ اس فیصلہ کے بعد پرائیویٹ مالکان کون کون سے چور دروازے ڈھونڈیں گے اور ہائی کورٹ کے فیصلہ کی دھجیاں اُڑنے کا بندوبست کیسے ہو گا تو اِن سب سوچوں کو بہت جلد حقیت بنتا دیکھنے کا موقع بھی مل گیا جب ماہ اپریل اور ماہ مئی میں دو دوبار فیس ووچر طلبہ کے والدین کو تھمائے جانے کے بارے انکشاف ہوا، اِن میں سے اکثر ادارے اپنے اساتذہ کو ماہ جون ،جولائی ،اگست کی معمولی تنخواہ بھی نہیں دیتے اور طالب علموں کے والدین سے دیگر اخراجات پورے کرنے کا کہہ کر کر ماہ جون جولائی کی فیسیں وصول کر لیتے ہیں یہ ہی نہیں کچھ ادارے تو ماہ مارچ یا اگست میں طلبہ سے سالانہ چارجز کی مد میں بھی اچھی خاصی رقم بٹور لیتے ہیں اِ ن اداروں میں اکثر خواتین اساتذہ ہی رکھی جاتی ہیں ایم اے ،ایم ایس سی ،بی ایڈ تک پڑھی خاتون کو آٹھ سے دس ہزار تک اور بی اے ،بی ایس سی والوں کو پانچ سے سات ہزار تک تنخواہ دی جاتی ہے تنخواہ رجسٹر پر کیا درج ہوتا ہے یہ صرف ادارے کا سربراہ جانتا ہے یا سکول کو رجسٹرڈ کرنے والے گورنمنٹ ادارے، خواتین اساتذہ سے صبح سکول کے آغاز سے آدھ گھنٹہ پہلے سے ڈیوٹی پر موجود ہونے اور آدھ گھنٹہ چھٹی کے بعد جانے اور مزید بچوں کے سلیبس کے حوالہ سے تیاری کرنے کے لیے کسی بھی دن کو چھٹی کے بعد مزید چند گھنٹے سکول میں ٹہرنے کے بارے میں ملازمت دینے سے پہلے شرائط رکھی جاتی ہیں مزید یہ کہ معمولی تنخواہ میں سے بھی ہر ماہ کچھ رقم سیکورٹی کی مد میں کاٹی جاتی ہے جو کہ ملازمت چھوڑنے کے وقت ادا کرنے کے بارے بتایا جاتا ہے لیکن وہ ملتی کسی کو بھی نہیں اِسکی وجہ ایک تو یہ کہ یہ شرائط جس فارم پر درج ہوتی ہیں اُسکی کاپی ملازمت کی خواہاں خواتین کو نہیں ملتی دوسرا جس رجسٹرڈ پر دستخط کر کے تنخواہ وصول کی جاتی ہے وہاں رقم کا اندراج بعد میں کیا جاتا ہے لہذا ان تمام تر باتوں کے خواتین اِن اداروں میں ملازمت اِس بنا پر کرتی ہیں کہ کچھ نا کچھ تو وہ معاشی طور پر کمانے کے قابل ہوئیں اِن خواتین اساتذہ میں سے کچھ تو گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے ملازمت حاصل کرتی ہیں اور کچھ اپنے آپ کو مصروف رکھنے یا مزید تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ملازمت پر مجبور ہوتی ہیں قارئین کرام !ایسا کچھ زیادہ تر آج کل شہروں اور چکوک میں کُھلنے والی بڑی نام والی فرنچائز میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے گلی محلوں میں کُھلے پرائیویٹ سکولوں کی اساتذہ کی حالت اِس سے بھی زیادہ قابل رحم ہوتی ہے میرے شہر اوکاڑہ میں بہت سے پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ اِس بات کی شکایت کرتے ملتے ہیں کہ اُنہیں ہر ماہ تنخواہ باقاعدگی سے نہیں دی جاتی اگر تنخواہ نہ ملنے کا شکوہ کریں تو سابقہ مہینوں کی تنخواہ دیے بغیر ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے بہت سے اداروں کی خواتین اساتذہ نے احتجاج بھی کیے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی نہ ہی میڈیا نے اِن خبروں کو قابل اشاعت سمجھا اور نہ انسانی حقوق کی بات کرنے والی این جی اوز نے ایسے حالات میں ہائی کورٹ کا پرائیوٹ اداروں کو ماہ جون ،جولائی کی فیسیں نہ وصول کرنے کاحکم ایک اچھافیصلہ تو ہو سکتا ہے لیکن اِس فیصلہ پر عمل درآمد کون کروائے گا ؟؟؟پرائیویٹ اداروں کے مالکان نے وہ ہی فیسیں ماہ اپریل اور ماہ مئی میں وصول کرنے کے ووچر والدین کو تھما دیے ہیں ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے عوام الناس کی بھلائی میں کیے گئے فیصلے مقبولیت بھی حاصل کرتے ہیں اور ہم خوشی میں کچھ دن ہی گزار پاتے ہیں کہ کوئی نیاطریقہ لوٹنے کا شروع ہو جاتا ہے ہمیں پھر سر پکڑ کرہی بیٹھنا پڑتا ہے میری اعلی حکام سے گزارش ہے کہ خدارااِس وطن کے رہنے والوں پر رحم کریں اگر ستر سال میں ایک نصاب اورایک زریعہ تعلیم رائج نہیں کر سکے تو کم ازکم ایسے عدالتی فیصلوں پر ہی عمل درآمد کروا لیں جس سے ہر شخص بلواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوتا ہے قارئین کرام ! جب تک مزید کوئی قانونی اقدام حکومت اُٹھائے گی اُس وقت تک موجودہ سال کی ماہ جون جولائی کی چھٹیاں گزر چکی ہونگی اور والدین ماہ جون ،جولائی کی فیسیں بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بلیک میلنگ میں آکربچوں کے مستقبل کا سوچ کرادا کر چکے ہونگے اور اِس آس میں اگلے سال کا انتظار کریں گے کہ شاید قانونی اقدامات عملی شکل میں ارباب اختیار کے نظر آ جائیں ٭

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 120803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.