بڑھتی ہوئی ٹریفک اور مسائل

ذرائع آمدورفت کا سُن کے آپکے ذہن میں یقینا سائیکل، موٹر سائیکل، کار، بس اور ریل گاڑی آتے ہونگے۔ چونکہ ٹانگہ، گدھا گاڑی اور گھڑ سواری تو پرانے زمانے کے سا تھ پرانے ہو گئے ہیں اس لئے آج کے دور میں انسان انہی ذرائع آمدورفت پے سفر کرتا ہے انسان وقت کے ساتھ ساتھ اپنے زرائع آمدورفت میں جدت لے آیا ہے ۔جس میں ہوا میں اڑنے والی گاڑیاں اور کمپیوٹر سسٹم سے لیس گاڑیاں شامل ہیں۔یہ بات تو سب کو پتہ ہے کہ سائیکل، موٹر سائیکل، کاراوربس سڑک پہ چلتی ہیں اور ریل گاڑی کے لئے مخصوص پٹری ہوتی ہے۔تاکہ سفر جلدی طے ہو، آرام دہ رہے اور گاڑیوں کا نقصان بھی نہ ہو۔پُوری دنیا میں سڑکوں اور ریل کی پٹریوں کا جال بچھا ہوا ہے انسانی ترقی اِن ذرائع آمدو رفت کے بغیر ممکن نہیں ہے انہی ذرائع کی بدولت آج فاصلے سمٹ گئے ہیں اور سازوں سامان کی ترسیل بھی ہو رہی ہے۔ یوں تو پاکستان کے بڑے شہروں میں ٹریفک کے بہت سنگین مسائل ہیں جن میں سرفہرست کراچی ہے،اسی طرح لاہور،ملتان،راولپینڈی،اسلام آباد،فیصل آباد،اور پشاور وغیرہ مگر اس تحریر میں ہم پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب کے اہم شہر لاہور کو زیر بحث لائیں گے کیونکہ یہاں کے وزیراعلیٰ کا دعو یٰ ہے کہ وہ لاہور کو پیرس بنائے گے لاہور کا ایک تاریخی شہر ہے جس میں مغل بادشاہوں کے دور کی بہت سی عمارات ہیں۔جن میں بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، شالامار باغ، چوبرجی اور بہت سی دوسری عمارات ہیں۔ لاہور صوبہ پنجاب کا دارلخلافہ بھی ہے اور پاکستان کا دل بھی اسی شہر کو کہا جاتاہے۔ جبکہ لاہور شہرکو ایک تاریخی حیثیت بھی حاصل ہے اِس لئے لاہور شہر کی تعمیر و ترقی پے بہت توجہ دی جاتی رہی ہے اور دی جا رہی ہے۔اِس حوالے سے لاہورشہر میں دن رات ترقیاتی کام بھی چل رہے ہیں جِن میں سب سے زیادہ توجہ سڑکوں ، پلوں اور انڈر پاسز پے دی جا رہی ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ لاہو ر جیسے تاریخی شہرمیں ترقیاتی کام چل رہے ہیں پر یہاں چند باتیں بھی قابلِ غور ہیں کے جو کام چل رہے ہیں اُن کی ضرورت تھی کے نہیں اور بلا وجہ عوام کا پیسہ ضائع تو نہیں کیا جا رہا ہے لاہور جیسے شہر کا حسن خراب تو نہیں کیاجا رہا اور جو کام چل رہے ہیں آیا کے حقیقت میں عوام کو اِن کی ضرورت ہے کے نہیں اور جو کام چل رہے ہیں اِن کی اپنی معیاد کتنی ہے اور یہ عوام کو کتنے سالوں تک فائدہ دیں گے؟لاہور میں ٹریفک دن بدن بڑھ رہی ہے کیا کبھی ہم میں سے کسی نے سوچا کے اسکی کیا وجہ ہے کہ لاہور میں پہلے نہ پل تھے اور ناہی سڑکیں اتنی زیادہ کشادہ تھیں اور ٹریفک بھی کنٹرول میں تھی تو اسکا جواب ہمیں چائینہ ،امریکہ سے کوئی خاص ٹیم بُلاکے یا کوئی کمیشن بنا کے نہیں ملے گا۔ شہباز شریف صاحب کے بطور وزیر اعلی پنجاب(خادمِ اعلی پنجاب)بننے سے پہلے آیا ٹریفک اتنی تھی ایسا کیا ہوا کے ٹریفک روز بروز بڑہنے لگی اور اب بھی ٹریفک بڑھتی چلی جا رہی ہے۔سادہ سی بات ہے شہباز شریف صاحب نے لوکل ٹرانسپورٹ کے اوپر توجہ نہیں دی آ پ یوں کہ لے کے جو پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی تھی وہ لاہور کے شہریوں کو سفری سہولتیں بہم پہنچانے میں ناکام ہو گئی تو لوگوں نے اپنی گاڑیاں خریدنی شروع کردی۔جسکی جتنی جیب نے اجازت دی اسنے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی سواری خرید لی۔ اور اس طرح ہر گھر کے جتنے افراد تھے مثلاََ ایک گھر میں3 ،4 یا 5 افرادتھے سب نے اپنی اپنی سواری بنا لی تاکہ آفس یا کام پر جلدی پہنچا جا سکے۔اوراس طرح ہر گھر میں ہر فرد کے پاس اپنی سواری بن گئی اور یوں گاڑیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہونے لگا اور جو ابھی تک جاری ہے۔ آفس ، سکول و کالج کے وقت ٹریفک بہت زیادہ ہو جاتی ہے اسکی وجہ یہی ہے کے ہر فرد کا اپنی سواری کا استعمال کرناہے۔اور یو ں ٹریفک کا بلاک ہونا معمول بن گیا۔تب لوگوں کو بھی لگا کہ سڑکیں کشادہ ہونا چاہئے پل اور اندر پاسز ہونے چاہئے اور یوں شہباز شریف صاحب نے سڑکیں پل بنانے کا بیڑا اٹھا لیا کیو نکہ عوام کو سہولت دینا تو حکو مت کا کام ہے یہاں ایک بات کہنا چاہوں گاکہ ہم نے اکثر سنا ہوگا کے پنکچر لگانے والے سڑکوں پے کیل پھنک دیتے ہیں کہ کوئی تو گاڑی پنکچر ہوگی تو پنکچر لگاوانے ہمارے پاس ہی آئے گی توکچھ یوں لگتا ہے شہباز شریف صاحب نے بھی کچھ ایسا ہی کیا کہ لوکل ٹرانسپورٹ بلکل نہ ہونے کے برابر کردی لاہور جسے عالمی شہرت رکھنے والے شہر کو چنگ چی رکشوں پے چھوڑ دیااور جب لوگ اپنی اپنی سواری سڑکوں پے لے آئے تو انھیں سڑکوں اور پلوں کی اشد ضرورت محسوس ہونی لگی۔جب کے ضرورت صرف اس امر کی تھی کے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ دی جائے تاکہ وہ اپنی سواری کا کم استعمال کرتے۔شہباز شریف صاحب پہ انکے مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ اپنے دوستوں کوفائدہ پہنچانے کے لئے انکو ٹھیکے اور اپنی فیکٹری کالوہا استعمال کرتے ہیں اور یہ بات کافی حد تک نظر آتی ہے کہ جہاں عوام کے اربوں روپے لگا کہ پل بنایاجا رہا ہے وہیں انھیں اربوں سے کئی بسیں خریدی جا سکتی تھیں عوام کو سستی سفری سہولتیں دینا بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔جہاں برھتی ہوئی گاڑیوں سے ٹریفک کے مسائل پیدا ہوئے وہا ں اور بھی بہت سے مسائل نے جنم لیا جن کے بارے میں شاید ہی کبھی کسی نے سوچا ہو ٹریفک سے کئی طرح کی آلودگی جنم لیتی ہے جیسے فضائی آلودگی، شور کی آلودگی اور ماحولیاتی آلودگی کیونکہ گاڑیاں پٹرول سے چلتی ہیں تو گاڑیوں کے انجن دھواں چھورتے ہیں جو فضائی آلودگی کا باعث بنتاہے آپ نے پچھلے سال اور اس سال دیکھا ہوگا کے لاہور شہر میں سموگ پھیل گیا تھا جسکی وجہ سے سانس اور آنکھوں میں جلن جیسی بیماریاں پیدا ہوگئی تھیں شور کی آلودگی سے انسان کے اندر ذہنی تناؤ جیسی بیماریاں پیداہوتی ہیں جسے بلڈ پریشر، بے خوابی، سننے کی صلاحیت کا کمزور ہو نا اور انسان میں چرچراپن پیدا ہو ناہے ماحولیاتی آلودگی سے فضاء بھی گرد آلودہ رہتی ہے ۔پاکستان پٹرول میں خود کفیل نہیں ہے پاکستان اپنی ضرورت کا پٹرول دوسرے ممالک سے خریدتا ہے اور اسطرح پاکستان اپنی جیب سے پیسہ دوسرے ممالک کی جیب میں ڈال کے دوسرے ممالک کی معشیت کو مظبوط کرتاہے اور اپنی معشیت کو کمزورہونا تو یہ چاہئے کہ ہم پٹرول کم سے کم درآمد کریں پچھلے سال کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں پٹرول کی درآ مد میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان نے پہلے سے زیادہ پٹرول درآمد کیا۔یہاں ایک اور بات قابل غور ہے جس طرح لوگ اپنی ٹرانسپورٹ خرید رہے ہیں اور جس طرح دن بدن آبادی میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اگر ایسے ہی اضافہ ہوتارہا تو پھر وہ دن دور نہیں جب لاہور شہرکی سڑکیں گاڑیوں سے بھر جائیں گی تو آپ سوچیں تب کیا ہوگا جہاں ٹریفک میں اضافہ ہوا ہے وہاں روڈ حادثات میں بھی اضافہ دیکھنے کو آیاہے ہر روز کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہوتاہے جہاں عوام کی غلطی کے ساتھ حکومت کی غلط منصوبہ بندی اور ناقص حکمت عملی شامل ہے حادثہ کا شکارہونے والا عوام کا گریبان پکڑے کے حکومت کا جس کی وجہ سے حادثہ رونما ہوا۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کے لاہور میں اعلی درجہ کی عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے جو لاہور شہر کے ایک کونے سے لے کے شہر کے دوسرے کونے کے لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرے اورنج لائن ٹرین ایک اچھا کام ہے اگر یہ قرض لئے بغیر اور لاہور شہر کے درمیان میں چلایا جاتا تو بہت اچھا ہوتاجوبسیں میٹرو پے چل رہی ہے انہی بسوں کا ایسا جال بنایا جائے جس طرح درخت کے ایک تنے کے ساتھ اسکی شاخیں نکلی ہوتی ہیں اورچاروں طرف پھیلی ہوتی ہیں بسوں کے چلنے کا درمیانی وقفہ کم از کم ۵ منٹ تک ہو تاکہ کسی کو سٹاپ پے کھڑے ہوکے زیادہ وقت انتظار نہ کرنا پرے سٹاپ بھی اعلی معیار کے بنائے جائے اگر ٹریفک کا بھوت آزاد ہو گیا تو پھر اسے قابو کرنا بہت مشکل ہو جائے گااور عوام سے بھی اپیل ہے اگر حکومت پبلک ٹرانسپورٹ چلاتی ہے تو اسے استعمال لازمی کریں ٹریفک کے قوانین پر عمل کرے اور گاڑی یا موٹر سائیکل کو سڑکوں کے کنارے پارک نہ کرے جو ٹریفک کے بہوں میں رکاوٹ کا باعث ہو۔4,5 کلو میٹر کاسفر ہو تو سائیکل کا استعمال کریں جو آپکی جیب پر بھی بھاری نہیں پڑے گی اور صحت بھی اچھی رہے گی حکومتی منصوبے تب تک کامیاب نہیں ہو تے جب تک عوام ساتھ نہ دے۔

Rizwan Ali
About the Author: Rizwan Ali Read More Articles by Rizwan Ali: 4 Articles with 5584 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.