مشرقی اور مغربی ماؤں میں فرق کیا ہے؟

امریکی ریاست میں ایک ماں نے اپنے بیٹے کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ اس کے بیٹے نے گھر میں ایک کتا پال رکھا ہے ‘ وہ اسے نہلاتا کھلاتا ہے ٗ اپنے ساتھ ٹہلنے کے لیے بھی لے جاتا ہے ۔ چار گھنٹے اس کے ساتھ رہتا ہے ٗ اسے وقت پر بہترین خوراک بھی دیتا ہے ۔ جبکہ میں اسی گھر میں رہتی ہوں لیکن پانچ منٹ کے لیے بھی بیٹا میرے کمرے میں نہیں آتا ۔ عدالت میرے بیٹے کو دن میں ایک مرتبہ ضرور میرے پاس آنے کا پابند کرے ۔ ماں نے جب مقدمہ لڑنے کے لیے وکیل کرلیا تو بیٹے نے بھی تیاری کرلی ۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی ۔ دونوں وکیلوں نے دلائل مکمل کرلیے تو جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا عدالت بیٹے کو پانچ منٹ کے لیے بھی ماں کے پاس آنے پر مجبور نہیں کرسکتی کیونکہ وہ بالغ ہے ۔ امریکی قانون کے مطابق اسے اختیار ہے کہ وہ ماں کو وقت دے یانہ دے ۔ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارنے میں آزاد ہے ۔رہی بات کتے کی تو کتے کے حقوق بھی لازم ہیں۔ ہاں اگر ماں کو کوئی اور پریشانی ہے ‘ تو وہ حکومت سے رجوع کرسکتی ہیں جو انہیں اولڈ پیپلز ہوم میں منتقل کر دے گی جہاں مناسب نگہداشت کا اہتمام ہوسکتا ہے ۔ یہ صرف کہانی نہیں حقیقی واقعہ ہے ۔ہم امریکہ کی ہر معاملے میں تقلید کاجنون کی حد شوق تو رکھتے ہیں لیکن امریکہ میں مقدس رشتوں بطور خاص والدین کے حقوق کس قدر کم اور توہین آمیز ہیں۔اس کااندازہ اس مقدمے کی کاروائی اور فیصلے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے پاکستانی معاشرے کے چند واقعات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ میں جس مسجد میں نماز پڑھتاہوں اس مسجد کے امام قاری و حافظ محمد اقبال عارف صاحب ہیں ٗوہ بہترین عالم اور مقرر بھی ہیں۔ ان کے والد محمد عارف جو رزق ہلال کمانے کے لیے چائے کا کھوکھا چلاتے ہیں ۔حسن اتفاق سے چائے کے اس کھوکھے پر سوئی گیس کنکشن موجود نہیں اور دن میں جتنی بار بھی گیس کی ضرورت پڑتی ہے ۔سلنڈر میں گیس بھرا کر لانی پڑتی ہے ۔گیس کی دکان کم ازکم ایک کلومیٹر تو دور ضرور ہوگی وہاں تک گیس کا سلنڈر بائیک پر اٹھاکر لے جانا اور پھر گیس بھروا کر سلنڈر کو چائے کے کھوکھے تک پہنچانے کی ذمہ داری ہماری مسجد کے امام ‘ قاری محمد اقبال صاحب احسن وخوبی انجام دیتے ہیں ۔ دن میں تین چار مرتبہ وہ یہ فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں ۔ایک دن مسجدمیں محفل میلاد جاری تھی ۔ مسجدنمازیوں سے بھری تھی ۔ اچانک ایک شخص کے ہاتھ امام صاحب کو ان کے والد کا پیغام آیا کہ سلنڈر میں گیس ختم ہوگئی ہے۔ فوری طور پر گیس بھرا کے لادو۔ امام صاحب نہایت خاموشی سے مجلس سے اٹھے اور والد صاحب کو گیس بھروا کر لادی اور پھر پہلے سے جاری مجلس میں آبیٹھے ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کاشمار علاقے کے ممتاز دانشوروں اور عالم دین میں ہوتا ہے ۔وہ والٹن کینٹ ایریا میں اہلسنت (بریلوی ) مسلک کی تنظیم کے پریذیڈنٹ بھی ہیں ۔ایک دن کسی اور مسجد میں میلاد مصطفے ﷺ کی محفل میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے ۔ عین موقع پر والد صاحب کا پیغام موصول ہوا ۔ انہوں نے دیگر علمائے کرام سے معذرت کی اور سلنڈر میں گیس بھروا کر پہلے والد صاحب کو دی۔ پھر میلا د مصطفے ﷺ کی محفل میں شرکاکے ہمراہ روانہ ہوئے ۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا قاری صاحب گیس بھروانے کا کام آپکے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا ۔میری بات سن کے وہ مسکرائے اور بولے میں اپنے والد کے پاؤں کی خاک ہوں۔ وہ جب چاہتے ہیں مجھے حکم دیتے ہیں ۔ میرا اولین فرض ہے کہ ان کے احکامات کی تعمیل کروں اگر وہ مجھ سے ناراض ہوگئے تو پھر میرا حافظ قرآن ہونا اور عالم دین ہونا بھی کام نہیں آئے گا۔ میری بخشش کیسے ہوگی ؟ قاری صاحب کی اس گفتگو پر میں حیران تھا کہ ایک امریکی ماں اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کے لیے بے چین ہے اور بیٹا پالتو کتے کے ساتھ چار گھنٹے گزارتا ہے لیکن ماں کے پاس آنے کے لیے اسے توفیق نہیں ۔ تو دوسری جانب مشرقی معاشرے میں ایک ممتاز عالم دین خود کو اپنے والدین کے پاؤں کی خاک تصور کررہا ہے ۔میری نظر میں شاید یہی وہ فرق ہے جو مشرقی اور مغربی گھرانوں میں پایہ جاتاہے ۔

ہم مغربی ممالک کی اندھی تقلید تو کرتے ہیں‘ انہیں ترقی یافتہ بھی مانتے ہیں لیکن معاشرتی طور پر وہ لوگ زندہ درگور ہوچکے ہیں ۔ مادر پدر آزاد زندگی کے قائل ہیں جو انہیں تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کرتی ہے ۔ میں جن دنوں اردو ڈائجسٹ میں جاب کرتاتھا ۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مجھے ایک قریبی جامع مسجد میں جانا ہوتا ۔ مجھے اس وقت حیرت کاسامنا کرنا پڑتا جب ایک گاڑی مسجد کے دروازے پر آ کر رکتی۔ ایک نوجوان بھاگ کر دروازہ کھولتا اوراپنے والد کو سہارا دے کر مسجد کے اندر تک لے آتا۔ اسے کار کے دروازے کھلا رہنے کی فکر نہیں تھی بلکہ اسے فکر تھی کہ اس کے والد ضعیف العمری کی بنا پر گر نہ جائیں ‘ وہ کرسی تلاش کرکے ان کے لیے لاتا جب والد کرسی پر اطمینان سے بیٹھ جاتے تب وہ اپنی گاڑی کو پارک کرنے جاتا ۔ وعظ کے دوران ہم سب امام صاحب کی گفتگو سننے میں محو ہوتے لیکن وہ نوجوان اپنی نگاہیں مسلسل اپنے والد کے چہرے پر جمائے رکھتا ۔ میں نے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ جب سب لوگ امام کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور آپ اپنے والد کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس نوجوان نے جواب دیا میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کرسکتا کہ والد مجھے کوئی حکم دیں اور توجہ کہیں اور ہونے کی بنا پر میں ان کے حکم کو بجا لانے میں تاخیر ہوجائے ۔
................

ایک اور واقعے کا ٰذکر کرنا یہاں ضروری سمجھتا ہوں میں کیولری گراؤنڈ پارک لاہور کینٹ میں صبح نماز فجر کے بعد سیرکرنے جاتا ہوں ۔پارک میں ایک نوجوان اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ چلتا نظر آتا ہے ۔اس کی والدہ ضعیف العمر اور وہ جوان ۔ والدہ گھٹنوں میں درد کی وجہ سے لنگڑا کر چلتی ہے اور بمشکل کیولری پارک کاایک ہی چکر لگا پاتی ہے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد اسے سستانے کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے وگرنہ وہ اگلا سفر طے نہیں کرسکتی ۔ بظاہر چلتے پھرتے تو میں اسے روزانہ دیکھتا ہوں اور میرے دل میں اس نوجوان کا بے حد احترام ہے ۔

لیکن کبھی گفتگو کا موقع نہیں آیا ۔ایک صبح میں ایک بینچ پر بیٹھا تھا کہ میرے کانوں میں آواز سنائی دی ‘ اگر ممکن ہوسکے تو میری والدہ کو بیٹھنے کے لیے جگہ دے دیں ۔ میں نے گردن گھما کر دیکھاتو وہی نوجوان اپنی والدہ کے ساتھ کھڑا نظرآیا ۔ اس کے باوجود میں خود بخود بھی چلنے پھرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا لیکن فوری طور پر میں یہ کہتے ہوئے بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا - نوجوان کو مخاطب کرکے کہا مجھے آپ پر فخر ہے وہ میری اس بات پر چونکا میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس میں حیرانی والی کوئی بات نہیں ۔میں اس لیے آپ سے خوش ہوں کہ آپ اپنی والدہ کا سایہ بن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔اچھے انسان وہی ہوتے ہیں جو والدین کا بڑھاپے میں سہارا بنتے ہیں لیکن بے شمار لوگ ایسے بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے والدین کو اولڈ فیشن سمجھنے لگتے ہیں۔ ان سے بات کرنا اوران کی مددکرنا وقت کا ضیاع تصور کرتے ہیں ۔ میری اس گفتگو پر اس نوجوان کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہوئے ۔ہماری گفتگو سن کر والدہ نے کہا واقعی یہ بیٹا میرا بہت خیال رکھتا ہے ۔
......................
میں جن دنوں کتاب "ماں" کے حوالے سے حاجی انعام الہی اثر کا انٹرویو کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے دوران انٹرویو بتایا کہ آپ ماؤں کی تربیت اور شفقت کو پیمانہ بناکر کہانیاں تیار کرکے اپنی کتاب میں شامل کرناچاہتے ہیں ۔میں آپ کو ایک ایسے شخص کا پتہ بتاتا ہوں جس نے اپنی زندگی بستر مرگ پر پڑی ماں کے لیے وقف کررکھی ہے۔ حالانکہ جیل روڈ مزنگ لاہور پر ان کااپنا شو روم ہے ۔ اپنی والدہ کو ملازموں کے سپرد کرنے کی بجائے وہ باری باری سب بھائی ماں کے پاس رہتے ہیں۔یہ واقعہ سننے کے بعد یقینا مجھے بھی حیرت ہوئی تو حاجی انعام الہی اثر مجھے اپنے ساتھ لے کر شادمان ٹو پہنچے۔ جہاں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک بزرگ عورت قومے کی حالت میں ایک بیڈ پر دراز بے سدھ لیٹی ہوئی دیکھی ۔ جبکہ عطا الرحمان اوران کی بیگم قریب ہی بیٹھے ہوئے سوئی ہوئی ماں کے چہرے کو اس خیال سے مسلسل دیکھ رہے تھے کہ شاید کسی بھی لمحے وہ ہوش میں آجائیں ۔ قومے کی حالت میں ہونا ایک دو ہفتے یا مہینوں کی بات نہیں بلکہ ان کی والدہ تین سال سے اسی حالت میں وہ پڑی تھیں ۔قدرت کایہ نظام ہے جب ہمارے گھروں میں کوئی عزیز فوت ہوتا ہے تو ہم قبر میں اتار آتے ہیں تب کچھ دن رونے دھونے کے بعد ہمارے دل کو سکون آ جاتاہے ۔اگر میت گھر کے آنگن میں ہی پڑی رہے تو ہم کتنے دن رو سکتے ہیں اور کتنے دن سوگوار حالت میں گزار سکتے ہیں ۔ قومے کی حالت بھی تقریبا ایسے ہی ہے ۔ایک انسان نہ اس دنیا میں موجود ہے اور نہ دوسری دنیا میں۔ بس بستر پر لیٹا ہوادکھائی دے رہا ہے۔ ڈراپس کے ذریعے اسے خوراک دی جاتی ہے ‘ وہ سانس لیتا ہے لیکن بات نہیں کرسکتا ۔ میں عطا الرحمان اور ان کے بھائیوں کے جذبہ ایثار کے بارے میں دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ آج کی دنیا میں ایسے لوگ بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جو ماں اور باپ جیسے مقدس رشتے کی قدر کرنا خوب جانتے ہیں ۔
....................
اقبال احمدقریشی شعبہ طب کا معتبر نام ہے ۔موصوف ‘ قرشی انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک اور چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ یہ شفائے الملک محمد حسن قرشی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں ۔شفائے الملک محمد حسن قرشی کا شمار اپنے زمانے کے بہترین حکماء میں ہوتا ہے ۔وہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے معالج بھی رہے ۔انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا عرصہ یونانی طب کی تحقیق اور علاج میں گزارا ۔اقبال قرشی اپنے کاروبار کی افزائش اور وسعت کے حوالے سے مختلف ممالک کا دورہ کرتے رہتے ہیں ۔ایک مرتبہ وہ امریکہ سے پاکستان بذریعہ ہوائی جہاز آرہے تھے ۔جہاز میں ان کی ساتھ والی نشست پر ایک بزرگ انگریز خاتون بیٹھی تھی ۔سفر طویل ہو تو مسافر آپس میں گفتگو کرنے لگتے ہیں ۔ اس بزرگ انگریز عورت نے اقبال قرشی سے پوچھا کہ آپ کس ملک کے باشندے ہیں ۔قرشی صاحب نے بتایا کہ میں پاکستان کا رہنے والا ہوں ۔انگریز خاتون نے پھر پوچھا کہ پاکستانی معاشرے میں بوڑھے والدین کا مقام کیا ہے ۔ قرشی صاحب نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں بزرگوں کا سب سے اہم کردار ہوتاہے ۔ شادی بیاہ ‘ رشتے ناتے سب کچھ بزرگوں کی مرضی و منشا کے مطابق ہی طے کیے جاتے ہیں۔گھر میں انہیں مرکز ی مقام حاصل ہوتاہے اگر وہ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے خلاف گھر کا کوئی فرد بغاوت نہیں کرسکتا ۔ قرشی صاحب جب یہ باتیں کررہے تھے تو بزرگ انگریز عورت حیرت سے ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔جب قرشی صاحب بات مکمل کرچکے تو انگریز عورت کی آنکھوں میں آنسو تیر نے لگے ‘ اس نے قرشی صاحب سے مخاطب ہوکر کہا کاش میں بھی پاکستان میں پیدا ہوئی ہوتی ۔
.................
اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ بچوں کی تربیت میں والدین کی شخصیت اور ماحول کا بہت اثر ہوتا ہے ۔مغربی مائیں اپنے بچوں کی تربیت اس انداز سے نہیں کرتیں جس انداز سے مشرقی مائیں اپنے بچوں کو پروان چڑھاتی ہیں ۔ مغربی مائیں جوانی میں یہ بھول جاتی ہیں کہ انہیں کبھی بوڑھا بھی ہونا ہے ‘ وہ اپنے آشناؤں کے ساتھ کلبوں میں راتیں بسر کرتی ہیں اور ان کے بچے نوکروں کے سپرد ہوتے ہیں جو ماں ساری رات گھر سے باہر گزارے گی کیا اس کے بچے کی شخصیت سازی اور تربیت پر برا اثر نہیں پڑے گا ۔ایک انگریز سے کسی نے پوچھا تم کس سے لڑکی سے شادی کرنا پسند کرو گے۔ انگریز نے جھٹ سے جواب دیا میں نے اپنے بچوں کی ماں سے شادی کروں گا ۔گویا شادی سے پہلے ہی جب بچوں کی پیدائش ہوگی تو نتائج یقینا فطرت کے برعکس نکلیں گے ۔

مشرقی ماؤں کی تو بات کچھ اور ہے ۔ وہ صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتی ہیں ابھی ان کے بچے گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں کہ نماز اور قرآن پاک کی تلاوت سے فارغ ہوکر اپنے ہاتھوں سے ناشتہ تیار کرتی ہیں ۔دیہات میں رہنے والی مائیں بھینسوں کا دودھ دوھنے ‘ چاٹی میں دودھ کو رڑک کر لسی اور مکھن الگ کرتی ہیں ۔پھر وہی مکھن روٹی پر لگاکر چنگیر میں جمع کرتی ہیں۔ اپنے ہاتھ سے ہینڈ پمپ چلا کر پانی نکالتی ہیں ‘ اسی پانی سے بچوں کو نہلاکر ناشتہ کرواتی ہیں اورپھر سکول کی وردی پہنا کر سکول بھیجتی ہیں اور دروازے پر اس وقت تک کھڑی رہتی ہیں جب تک بچے ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتے ۔یہی وجہ ہے کہ بچوں کی نس نس میں ماؤں کی محبت بھر جاتی ہے ۔پھر جب مائیں بوڑھی ہوتی ہیں تو بچے اس وقت کھانا نہیں کھاتے جب تک ماں کو کھانا اپنے ہاتھوں سے نہ کھلا دیں ۔یہی عالم والد کا بھی ہے وہ کھیتوں میں اس وقت بھی کام کرتا ہے جو پچھلی رات کااندھیرا ماحول پر چھایا ہوتا ہے ۔بچے کے بہترمستقبل کے لیے ہرمشکل سے گزر جاتاہے ۔ اسی محبت اور جانفشانی کا صلہ والدین کو بچے بڑھاپے میں لوٹاتے ہیں ۔ شہری زندگی میں دیہاتی زندگی کی نسبت کافی فرق ہے لیکن یہاں بھی مائیں دھن من دھن اپنے بچوں کے لیے قربان کرنانہیں بھولتیں ۔ صبح سویرے خود بھی گہری نیند سے بیدار ہوکر نماز پڑھتی اور تلاوت قرآن پاک کرتی ہیں پھر بچوں کے ناشتے کا اہتمام کرتی ہیں ۔ماؤں کے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتہ کرنے سے لامحالہ بچوں میں انسیت کا جذبہ کچھ اس انداز سے پروان چڑھتاہے کہ اس کا اثر زندگی کی آخری سانس تک قائم رہتاہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی اور مغربی ماؤں کی زندگی اور تربیت میں یہی فرق ہے ۔ اگر امریکی ماں کا بیٹا ماں کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے پالتو کتے کے ساتھ وقت گزارتا ہے تو اس میں ماں کا بھی یقینا قصورہے جس نے جوانی میں اپنے بیٹے کے ساتھ وقت گزارنے اور اسے اپنی محبت کااحساس کروانے کی بجائے اپنے آشناؤں کے ساتھ زندگی کے شب و روز گزارے ہوں گے ۔ الحمداﷲ مشرقی معاشرے میں ابھی تک مغربی معاشرے کی فرسود ہ اور بیہودہ روایات اپنے قدم نہیں جما سکیں ۔ جس کی بناپر آج بھی ہمارے گھرانوں میں اپنے بزرگوں کی عز ت و توقیر قائم ہے ۔ والدین جو فیصلہ کردیں اسی فیصلے پر اولاد زندگی کی آخری سانس تک قائم رہتی ہے ۔ یہی مشرقی والدین کی تربیت کا حسن ہے ۔ ماؤں کا عالمی دن منانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ مشرقی معاشرے میں 365 دن ہی ماؤں کے ہوتے ہیں۔ یہاں والدین کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ بزرگوں کے احترام کودیکھتے ہوئے ہمارے بچے بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 660028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.