ایک نوکری پِیشہ انسان کی فرضی کہانی مگر حقیقت کے نزدیک ترین

( جو آج کل ہر نوکری کرنے والے کے ساتھ ہو رہا ہے جس پر کوئی سوچتا ہی نہیں کہ ایک نوکری پِیشہ انسان کس تکلیف سے گزر رہا ہوتا ہے.نوکری کے ساتھ گھر کو کس طرح چلانا چائیے اور ایک تنخوہ کو کس طرح سے بچا کر اپنے لیے رکھنا ہے کہ مشکل وقت میں کام آسکے. یہ تمام معملات سمجھانے کے لیے ایک فرضی کہانی لکھ رہا ہوں امید ہے میری یہ فرضی کہانی آپ سب کی حقیقی زندگی میں ضرور کام آۓ گی. شکریہ )

ندیم . . آج جب گھر آیا تو نوکری کی تھکن اور باس کی ڈانٹ سے تنگ تھا .اور گھر جاتے ساتھ ہی بیوی نے کہا کے مجھے پانچ ہزار روپے چاہیے ہیں. شوہر بہت تھکا ہوا تھا وہ پہلے ہی بہت پریشان تھا … بیوی کی اِس بات نے اسے مزید غصہ دلا دیا اور پریشانی میں مبتلا کر دیا . . شوہر پھر بھی بہت ہی دھیمے لیجئیے میں بولا خیریت کیا ہوا ہے. آج پانچ ہزار میرے آتے ہی تم نے مانگ لیے ہیں۔ نا پانی کا پوچھا نا میری حالت دیکھی۔.. بیوی..ھممم…بیوی بولی ہاں وہ میری بہن کی سالگرہ ہے اس کا تحفہ لینا تھا کپڑے لینے تھے شوہر خاموش ہو گیا. اور كھانا کھایا پھر بِیوِی کو تھوڑا سمجھانے لگا کے تھوڑی احتیاط کرو میں

ایک نوکری ہی کرتا ہوں میری کوئی اُپر کی آمدنی نہیں ہے . . خیر یہ بات کر کے بِیوِی کو پیسے دے دیئے …پھر کچھ ہی دن گزرے تھے کے بیوی نے شوہر کو پھر کام سے گھر آتے ہی وہی الفاظ کہہ دیئے. مجھے نا آج دو ہزار چاہیے ہیں. .. میرے کسی ریشتےدار نے نیا گھر لیا ہے تو ہار پھول مٹھائی اور ایک جوڑا لینا ہے۔ ان کے لیے …شوہر بے حد پریشان ہوتا ہے۔ مگر ضبط کرتا ہے اور کچھ نہیں کہتا مگر آج پھر كھانا کھا کر جب بیوی کو پیسے دینے لگتا ہے تو کہتا ہے دیکھو بیگم میں پہلے بھی کہہ چُکّا ہوں میں ایک ہی کمانے والا ہوں۔ مہینے پر ایک ہی تنخواہ ملتی ہے مجھے دو نہیں خُدا کے لیے ذرا خیال کرو ابھی مہینہ بھی پورا نہیں ہوا ہے.. اور میں آج کسی سے تین ہزا اُدھار لایا تھا۔ کے اِس مہینے کے کچھ دن جو رہ گئے ہیں وہ خیر سے گزر جائیں. مگر اب تین میں سے دو تمہیں دے دونگا پھر باقی کے دن کیسے گُزرے گے . . . بِیوِی کہتی ہے اب کیا کیا جائے یہ ریشتےداروں کو بھی چھوڑا تو نہیں جا سکتا نا…خیر بجائے شوہر کا ساتھ دینے کے بِیوِی اپنا ہی فلسفہ سنا گئی … . شوہر خاموش رہا کچھ نہیں بولا اور بولتا بھی کیا کوئی بات سمجھ جو نہیں آرہی تھی.. بیوی کو... خیر پھر کچھ وقت گزرا اور مہینے پر تنخوہ مل گئی . . اب تو جیسے ہی شوہر گھر آیا تو بِیوِی نے آتے ہی پانی پوچھا چائے دی شوہر بولا کیا یہ سب خلوص اور محبت مہینے پر تنخوہ کے دن ہی میسر ہوتی ہیں ہم مردوں کو. .... بیوی ھممم.. خیر ہلکا پھلکا ہنسی مذاق ہوا اور پھر وہی بِیوِی کی ڈیمانڈ.. کہ اِس مہینے مجھے میری فلاں بہن کے گھر جانا ہے فلاں کے گھر یہ تقریب ہے فلاں کی شادی ہے. وغیرہ وغیرہ… شوہر پھر تھوڑا غصہ ہوتا ہے کے بھئی کتنی دفعہ بتاؤں کہ میں ایک ہوں.. ایک ہی تنخوہ ملتی ہے مجھے لیکن بِیوِی کہا سنتی ہے.. اسے جو کرنا ہوتا ہے وہ وہی کرتی ہے۔ وہی تقریبات ہوتی ہیں وہی اخراجات ہوتے ہیں. اور ان سب کی وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ تمام تنخوہ مہینے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہے اور جو جمع پونجی ہوتی ہے وہ بھی ختم ہوجاتی ہے. اور کچھ بھی نہیں بچتا.. اور پھر مہینے کے آخر میں ندیم کو کسی سے قرضہ لینا پڑتا ہے… . خیر پھر وہی سب ہوتا ہے ، ، ، ایک تو پیسے ختم ہوجاتے ہیں مہینے سے پہلے ہی اور اُدھار الگ سَر چڑ جاتا ہے…شوہر ان سب چیزوں سے بہت پریشان ہوتا ہے.. کہ اب کیا ہوگا. کیسے کرے گا گُزارَہ مہینے کے اخیر تک... اب کسی سے اگر اُدھار لے کر دے گا کسی کو تو جس سے لے گا پیسے اسے بھی تو واپس کر نے ہوں گے پیسے ... اس پریشانی میں شوہر سے جاب پر کوئی ایسی غلطی اور نقصان ہوجاتا ہے. کہ اسے اسی وقت جاب سے نکل دیا جاتا ہے…اب جاب بھی نہیں ہوتی اور اخراجات بھی وہی ہوتے ہیں شوہر پریشان ہو کر گھر لوٹتا ہے .. گھر آ کر بِیوِی کو بتاتا ہے . بِیوِی بھی پریشان ہوتی ہے. کہ اب کیا ھوگا.. خیر حالات مزید خراب ہوجاتے ہیں. اور پھر نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ آپس میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں لوگوں سے پیسے اُدھار لینے پڑھتے ہیں …اُدھار بھی لوگ اب نہیں دیتے کب تک کون کس کا ساتھ دیتا ہے …خیر آخیر کار ندیم کے اِس مشکل ترین وقت میں ایک دوست کام آ تا ہے . . ندیم کے دوست کا نام "ظفر" ہوتا ہے. ندیم کی سب کہانی سن کر ظفر کہتا ہے ٹھیک ہے. تم شام میں میرے گھر آجاؤ…شام کو ندیم ظفر کے گھر اپنی بِیوِی کے ساتھ جاتا ہے اور سلام دعا کے بعد چائے وغیرہ پینے کے بعد ظفر کہتا ہے میں تمہیں آج ہی نوکری کروا دوں گا مگر میری ایک شرط ہے.میری کچھ باتوں کو بینا سمجھے اور بینا ان باتوں پر عمل کیے تمہیں یہ نوکری نہیں ملے گی …ندیم پہلے ہی بہت پریشان ہوتا ہے اور جاب مل جاۓ گی یہ بات سن کر بہت خوش ہوتا ہے .اور دل ہی دل میں سوچنا شروع کر دیتا ہے. کہ ظفر دوست ہی تو ہے میرا اور میری مدد کر رہا ہے میں اِس کی بات سن لیتا ہوں۔۔۔ اور عمل کی کوشش بھی کروں گا. …ظفر کہتا ہے بھائی ندیم کہا کھو گئے ہو۔۔۔ ندیم کہتا ہے نہیں نہیں کچھ نہیں تم کہو کیا کہنا ہے میں ضرور عمل کروں گا …ظفر کہتا ہے …ندیم میری ایک بات یاد رکھنا اپنی بِیوِی سے کہو کے رشتہ دَار سب کے ہوتے ہیں اور سب کو عزیز ہوتے ہیں لیکن دِکھ لو آج تمہارے اِس مشکل وقت میں کوئی ریشتےدار تمہارے ساتھ نہیں ہے …ندیم میاں رشتے داریاں نبھاتے نبھاتے ہم یہ بھول جاتے ہیں کے ہماری شادی شدہ زندگی بھی ہے ... . جس میں میاں بِیوِی بچے ہیں . بچوں کی تعلیم تربیت . ماں باپ بھی ہیں ساتھ . ان کے لیے بھی علاج معالج کی ضرورت ہوتی ہے پیسے چائیے ہوتے ہیں... ان سب کے علاوہ جو بھی لوگ ہیں ان سے ملو جاؤ آؤ ان کے پاس .. مگر ایک بات یاد رکھنا اتنا جانا آنا ٹھیک نہیں ہے…کیا تمہارے پاس اتنا سرمایہ ہے جو تمہاری بِیوِی اتنا خرچہ کروتی ہے تم سے ... اپنی بیوی کو سمجھاؤ اور اسے کہو کے دیکھو آج اس مشکل وقت میں کوئی ساتھ نہیں ہے.. ہمیں خود اپنی زندگی بنانی ہے اپنے بچوں کی زندگی بنانی ہے .. دیکھو ندیم تمہیں اتنی رشتےداریاں رکھنی ہے جو تمہارے لیے ٹھیک ہوں. حد سے زیادہ رشتےداروں میں جانا ٹھیک نہیں ہے .نہیں تو اِس وقت کی طرح پھر سے کل تم پریشان کھڑے ہوگے اور کوئی ساتھ نہیں دے گا تمہارا.. میں نے بھی دنیا سے ایک دن جانا ہے کل میں بھی نہیں ہوا پھر کون دوست تمہاری مدد کرے گا..اس لیے میری ہر بات غور سے سنو اور سمجھو .. تمہارے جتنے بھی ریشتےدار ہیں ان سے برابری کا کبھی مت سوچنا اور بھلے ہر روز تقریبات ہوں مگر تم اپنا ایک ٹائم ٹیبل بنا لو کے ہمیں صرف اور صرف مہینے میں ایک دعوت اٹینڈ کرنی ہے وہ بھی جو حد سے زیادہ اہم ہو. ورنہ جسے ابھی تمہارے حالات ہیں تم چھے مہینے تک یاد رکھو کوئی دعوت اٹینڈ مت کرنا... اور دوسری بات یہ کے اگر ریشتےدار تمہیں کہیں کچھ بھی کے آتے نہیں ہو یا مغرور ہو جو بھی . . تم خاموش رہنا اور یہی کہنا کے ہر دعوت کو اٹینڈ کرنی کی میری حیثیت نہیں ہے. . میرے بچون کا ساتھ ہے میں اگر آئے دن تقریبات ہی اٹینڈ کروگا تو پھر اپنے بچون کو کیا پڑھاوں گا کیا کھیلاوں گا…بس…اور رشتے داروں سے تَرْک تعلق بھی آچھا نہیں ہے . اِس لیے بھلے جاؤ نہیں مگر دِل میں کبھی کسی کے لیے برائی نہیں رکھنا اور اپنی اولاد اور بِیوِی کے لیے اپنے ماں باپ کے لیے خوب محنت کرنا تمہارے ماں باپ کی دعا ہوگی تم پھلو گۓ پھولو گے تمہارے بچے اچھا پڑہیں گے تمہاری بِیوِی جگہ جگہ تقریبات میں نہیں جائے گی تو اس کا دماغ بھی جگہ پر رہے گا۔۔۔ دیکھو جب انسان دیکھتا ہے تو دِل میں بہت سی باتیں پیدا ہوجاتی ہے انسان کے. اِس لیے …اور مہینے کے اَخِیر میں کہیں باہر جاؤ نارمل سی جگہ ماں باپ کو بیوی بچون کو لے کر... جو پیسے تم ان ریشتاداروں پر خرچ کرتے تھے جو آج تمہارے ساتھ نہیں ہیں وہی پیسے ماں باپ اور بِیوِی بچو پر کرنا پھر دیکھنا برکت بھی ہوگی رحمت بھی تم بھی سکون سے ہوگے گھر بھی اور اِس پریشانی کے وقت کے لیے کچھ نہ کچھ بچا کر رکھا کرو ہمیشہ جب بھی سیلری آجائے تو یاد رکھو کچھ پیسے بینک میں ہی چھوڑ دو …میری ان باتوں پر عمل کرو گے تو کسی قابل ہو جاؤ گے . . ورنہ صرف اور صرف اِس سوچ میں مر جاؤ گے. کہ کہا سے لاؤں اور کہا سے روز تقریبات پر خرچ کروں ..

زندگی میں کبھی بھی کسی سے اپنا موازنہ یا برابری کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ہر انسان مختلف ہے ہر ایک کا نصیب اور قسمت الگ الگ ہے ہر انسان کی ذہانت الگ ہے ہر انسان کی محنت الگ ہے..یاد رکھیئے جو خاصیت اور صلاحیت آپ میں ہے وہ کسی دوسرے میں نہیں بکل اسی طرح جو خاصیت اور صلاحیت دوسرے میں ہے وہ آپ میں نہیں ہے. اِس لیے محنت سے اپنا نصیب بناؤ محنت سے اپنی زندگی کا آشیانہ بناؤ اور یہ آشیانہ جب ہی بنے گا جب ایک گھر کے مرد کے ساتھ بیوی بھی ساتھ دے گی۔ ورنہ ایک اکیلا انسان اس مشکل ترین دود میں پورا نہیں کر سکتا .. اکیلا انسان اس سوچ میں ہی پڑا رہے گا کے کہا سے پیسے لاؤں اور اس چکر میں ایک انسان صرف کما ہی سکتا ہے نہ اپنی صحت دیکھ سکتا ہے نہ ترقی کر سکتا ہے۔ بیوی گھر کو گھر بناۓ شوہر کے پیسوں کو جوڑے تاکے مشکل وقت میں کام آ سکے۔ اور بیوی کو یہ سمجھنا چائیے کے رشتے داروں سے پہلے فیملی ضروری ہے ... یہ پوری تحریر لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ شادی شدہ زندگی میں مل کر چلنا ہی عقل مندی ہے کسی بھی ایک پر بوجھ ڈالنا ٹھیک نہیں۔۔۔ مل کر جو گھر چلتے ہیں وہی گھر کامیاب ہوتے ہیں۔۔ میرا مقصد یہا ریشتے داروں کو برا کہنا نہیں ہے میرا مقصد صرف یہ ہے کے سب کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور ماں باپ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے کر چلیں اس دور میں ریشتے نبھانا پیسے نے مشکل کر دئیے ہیں .اس دور میں معذرت کے ساتھ بغیر پیسے کے کوئی رشتہ مخلص نہیں ہے صرف ماں باپ کے ...اس لیے میزان میں لیمیٹ میں رہتے ہوے ریشتے نبھائیں ۔ انسان کے دِل میں اپنے آشیانے کی قدر و قیمت جب ہی ہو گی جب دونوں شوہر اور بیوی مل کر چلے گئے پھر کامیابیاں بھی ملے گی اور ترقی بھی۔۔ اللہ پاک آسانیاں پیدا فرماۓ اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بھی نصیب فرماۓ ۔ امین

Shohaib haneef
About the Author: Shohaib haneef Read More Articles by Shohaib haneef: 17 Articles with 45693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.