جینیاتی ترمیم شدہ پودے

تحریر : محمد معاذ (زرعی یونیورسٹی ، فیصل آباد)
ٹرانسجینک پلانٹس ان پودوں کو کہا جاتا ہے جن کے ڈی این اے کی جینیاتی انجینئرنگ کے طریقوں کی مدد سے ترمیم کی جاتی ہے۔ اس ترمیم کا مقصدان پودوں میں نئی اور پہلے سے بہتر خصوصیات کو متعارف کرانا ہے جو ان پودوں میں پہلے سے موجود نہیں ہوتیں۔ ٹرانسجینک پودوں میں ایک یا ایک سے زیادہ جینز کو مصنوعی طریقوں سے ڈالا جاتا ہے اور جس جین کو کامیابی سے پودے میں متعارف کروا دیا جائے اس کو ’’ٹرانس جین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ جین کسی دوسرے پودے یا مکمل طور پر کسی اور نسل کے پودے سے بھی ہو سکتی ہے۔ پودوں میں نئی جینز متعارف کرانے کے بعد پودوں کو پہلے سے زیادہ مفید اور پیداواری بنایا جاسکتا ہے۔ اس رجحان کا مقصدپودوں میں کچھ خصوصیات کو بہتر بناناجیسا کہ معیار، شیلف لائف بڑھانا، زیادہ پیداوار، کیڑوں سے مزاحمت، گرمی اور ٹھنڈکی برداشت،قحط سے مزاحمت اور دوسری کشیدگیوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرنا ہے۔
ان ٹرانسجینک پلانٹس کو پیدا کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ان میں بیرونی پروٹین کو متعارف کرایا جائے جن کے اندر صنعتی اور دوا سازی کی خصوصیات موجود ہوں۔جو پودے ان پروٹین کی مدد سے پیدا کئے جاتے ہیں وہ انسان کی پھیلائی گئی بیماریوں سے پاک ہوتے ہیں۔اس کا ایک بہت اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اسکریننگ کے اخراجات سے نجات مل جاتی ہے۔سب پہلا ٹرانسجینک پودا 1983ء میں مستند کیا گیا تھا۔جس کے بعد سے اب تک بہت ساری فصلوں میں جیسا کہ مکئی، ٹماٹر، آلو، کیلا، تمباکو اور الفالفہ میں یہ پروٹینز کامیابی سے متعارف کرائی جا چکی ہیں۔جینیاتی طور پر ترمیم کی ٹیکنالوجی کو مختلف اقسام کے پودوں کو تیار کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔جیسے جیسے دنیا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے خوراک محدود ہو تی جارہی ہے۔جس کی وجہ سے ٹرانسجینک پودوں کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی پیداوار بڑھانے ،نقل و حمل کے اخراجات کم کرنے اور غذائی مواد بڑھانے میں اہم فوائد فراہم کرتا ہے۔امریکہ اور کینیڈا جہاں پہ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا ہے وہاں پر کیڑوں کے خلاف مزاحمت اور کیڑے مار دوائیوں کے لئے برداشت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جبکہ کچھ مواقع پر قیمت اور آسانی کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔دنیا میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کی کاشتکاری میں 1996 میں7.1 ملین ہیکٹروں سے 2001 میں6.52ملین ہیکٹروں تک اضافہ ہواہے جو کہ صرف چھ سالوں میں 30 گنا اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔تاہم جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کے اتنے فوائد ہونے کے باوجود بہت سے صحت اور ماحول کے متعلق خدشات بھی اٹھائے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان پودوں کی وسیع پیمانے پہ پھیلاؤ میں مخالفت آرہی ہے اور اس کی مقبولیت میں فقدان آرہا ہے۔جبکہ دوسری طرف اسی طریقہ کار سے تیار کردہ ادویات اور دوسری مصنوعات کو بڑے پیمانے پر عام استعمال میں لایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں بھی جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کو استعمال میں لایا جا رہا ہے جن میں سے سر فہرست بی ٹی کاٹن ہے۔کاٹن میں ایک عام زمینی بیکٹیریا کی جینز کو متعارف کروایا جاتا ہے جس کی بدولت کاٹن کا پودا ایک پروٹین پیدا کرنا شروع کرتا ہے جو کہ کاٹن کہ کچھ جان لیوا کیڑوں کے لئے مضر ہوتی ہے۔بی ٹی کاٹن کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی خدشات بی ٹی جینز اور وہ جس فصل میں متعارف کرائی جائیں اس پر منحصر ہے۔کیونکہ بہت سے کیڑے ہر جگہ پر مضر نہیں ہوتے اور بالکل اسی طرح بی ٹی جینز ہر جگہ کار آمد نہیں ہو سکتی۔بی ٹی کاٹن کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے کیڑے مار ادویات کے سپرے میں نمایاں کمی آتی ہے جس سے بہت سے ماحولیاتی آلودگی کیخدشات سے بچاؤ ممکن ہے۔دنیا میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ کاٹن کی کاشت میں 1996میں 2فیصد سے 2002 میں 15 فیصد تک اضافہ ہوا ہیاور اس میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جو کہ بہت خوش آئند بات ہے۔سنہری چاول جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کی ایک اور مثال ہے جس کی مدد سے چاولوں میں جینیاتی طریقے سے وٹامن اے بنوایا جاتاہے۔دنیا میں 200ملین سے زیادہ لوگ وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں اور سنہری چاول اس کمی کو پورا کرنے کا سنہری،آسان اور سستا طریقہ ہے۔جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودے بہت سے فوائد کے ضامن ہیں جن کے بارے میں پہلے بتایا جا چکا ہے۔

جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کے استعمال کے بہت سے نقصانات بھی ہیں جس کی وجہ ان کی ناقص ٹیسٹنگ ہے۔جینیاتی طریقوں کے استعمال کے بعد پودوں میں جو پروٹینز پیدا ہوتیں ہیں وہ انسان کے جسم میں جا کر بہت سے بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہیں۔جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کے استعمال سے خوراک کی الرجی بھی جنم لے رہی ہے جو بچوں پر جان لیوا طریقوں سے اثراندز ہو رہی ہے۔جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودے نہ صرف انسانی بلکہ حیوانی آبادی اور ماحول پر بھی اثر اندا ز ہوتی ہیں۔ان کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی طور پر موجود پودوں کے لئے بھی مضر ثابت ہوئے ہیں۔جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کی کاشت ان جینز کی دوسرے پودوں تک رسائی بھی ممکن بنا رہی ہیں جو کہ ان پودوں کے لئے ہی نئی بلکہ ان پودوں کو استعمال کرنے والوں کے لئے بھی مضرِ صحت پائی گئی ہیں۔ اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کی کاشت بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان نقصانات پر بھی نظرثانی ضروری ہے جو یہ پودے انسانوں ،جانوروں اورہمارے اِرد گِرد کے ماحول کو پہنچا رہی ہیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.