ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء))

شاعرِ مشرق '' ڈاکٹر علامہ محمد اقبال '' کے اشعار کی روشنی میں ملک و قوم خصوصاً نوجوانوں کے لیئے پیغامات

پُر دم ہے اگر توُتو نہیں خطرہ اُفتاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

علامہ محمد اقبال شاعرِ مشرق سے کون نہیں واقف، علامہ اقبال نے ہی سب سے پہلے تصورِ پاکستان پیش کیا، اپنی شاعری سے ہر دم ایک نئی روح پھونکی، خاص طور پر نئی نسل کے نوجوانوں کو '' خُودی '' کا درس دیا، علامہ اقبال دراصل '' شاعرِ حیات '' شاعرِ فردا'' شاعرِ مشرق'' اور شاعرِ انقلاب تھے، ان کی شاعری میں انقلابی روح، پیغمبرانہ شان،سوزوفکر، اسرارِ معرفت، حقیقت شناسی، فلسفہ عشق فلسفہ خودی، حق گوئی اور تصورِ شاہین سبھی کچھ موجود ہے، علامہ اقبال نے ہی پاکستانی نوجوانوں کو '' شاہین '' کا نام دیا، علامہ اقبال چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں، ان کی قوم کے نوجوانوں میں، طالبِ علموں میں وہ صفات پیدا ہوں جو کہ شاہین میں ہیں، شاہین وہ پرندہ ہے جس کا نام جس کا ذکر علامہ اقبال نے بارہا اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ شاہین ہی وہ واحد پرندہ ہے جو اونچی پرواز سے بھی کبھی تھک کر نہیں گرتا،وہ کبھی آشیانہ نہیں بناتا،وہ بلند پرواز ہے، خلوت پسند ہے، تیز نگاہ ہے، اور یہی صفات علامہ اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے،
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑون کی چٹانوں پر

نوجوان مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، قوم کو مضبوط اورمستحکم بنانے کی ذمے داری نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے، علامہ اقبال چاہتے تھے کہ ان کے نوجوان فولاد بن جائیں، خودی کو اس قدر مستحکم کر لیں کہ وہ فولاد بن جائے، ساتھ ساتھ نوجوانوں کی رہنمائی کے لیئے '' بوڑھوں '' کا وجود بھی ضروری ہے کیونکہ انہوں زمانے کا سرد و گرم دیکھا ہوتا ہے، تمام نوجوانوں کو چاہییئے کہ بزرگوں کے سائے میں شاعرِ مشرق کے پیغامات کی روشنی میں آگے بڑھیں اور شاہین کی پرواز اختیار کریں کیونکہ،،،
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے خودی کی تعلیم دی ہے کہ '' خودی '' ایک ایسی روحانی قوت ہے جو انسان میں خدائی صفات پیدا کرتی ہے، جو خدا سے عشق و محبت کے بعد پیدا ہوتی ہیں،جب انسان میں خودی مستحکم ہو جاتی ہے تو اُسے کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا، ااور دین و دنیا کی دولت قدموں تلے آجاتی ہے، خودی سے مراد انسان کی عزتِ نفس ہے، خودی انسان کی وہ خصوصیت ہے جو اُسے درجہ کمال تک پہنچاتی ہے، اور اس وصف کا نوجوان نسل میں ہونا انتہائی ضروری ہے کہ نوجوانوں میں عزتِ نفس ہو گی تو اپنا، اپنے ملک کا مستقبل یقیناً بہتر طور پر سنوار سکیں گے، اپنی تقدیر خود بنا سکیں گے کہ،
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے یقیناً مسلمانانِ عالم کو مسلسل جدوجہد اور عمل کا درس بھی دیا ہے، گویا اقبال کی شاعری میں وہ '' بانگِ درا '' ہے جس نے مسلمانوں کے اذہان کو نئی توانائی بخشی، اقبال کی شاعری وہ '' ضربِ کلیم '' ہے جس نے ملتِ اسلامیہ کی بے حسی اور جمود کو توڑا، ملتِ اسلامیہ میں ایک نئی روح پُھونکی،، شاعرِ مشرق کا یہ شعر کتنا خوبصورت پیغام ہے ملتِ اسلامیہ کے ان نوجوانوں کے لیئے جو آج مغرب کی تقلید میں اندھا دھند ماڈرن ازم کی جانب رواں دواں ہے،
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

انسان جوبظاہرخطا کا پُتلا ہے، اور کمزوری اُس کی فطرت ہے، لیکن اگر وہ چاہے تو زمین، آسمان فتح کر سکتا ہے، منزل صرف ظاہری اور وقتی معاملات سے بہت آگے ہے، بقل علامہ اقبال، '' ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ''

اگرچہ علامہ اقبال کے زمانے میں انسان کے قدم ستاروں سے آگے نہیں گئے تھے، لیکن واقعہ معراج سے انسان کی منزل رسائی کا اشارہ ملتا ہے، اقبال نے جو بات شاعرانہ انداز میں کہی تھی، وہ اب ایک حقیقت بن چکی ہے، اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے '' تصوف '' ''عرفان '' اور '' حکمت '' کا درس بھی دیا ہے، اور اسی کو تسخیرِ کائنات کا سبب بھی قرار دیا ہے کہ جب انسان '' معرفت '' اور '' حکمت '' سے واقف ہو جاتا ہے تو وہ شاہین کی پرواز اختیار کر لیتا ہے، اور آج، آج کا انسان چاند پر چہل قدمی کر چکا ہے، اب نئے اُفق اور نئی منزلیں منتظر ہیں، بقول اقبال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تُو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روزوشب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان ومکاں اور بھی ہیں

علامہ اقبال مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق دیکھنا چاہتے تھے جس کا آج کل فقدان ہے ، وہ فرماتے تھے،
اے مسلمانو۔۔۔!
متحد ہو جاؤ، اسی میں تمہاری بقاء کا سامان ہے، ورنہ دوسری قومیں تمہیں ختم کر دیں گی،(اوربیشک آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے، شام، افغانستان، فلسطین ہر جگہ مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے) سعی مسلسل اور عملِ پیہم زندگی میں کامیابی کے لوازم ہیں اور سکون '' موت '' ہے، جو قومیں مصروفِ عمل ہوں وہ زندہ رہتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں اور جو بے عمل ہیں وہ فنا ہو جاتی ہیں، بقول اقبال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

علامہ اقبال نے راہَ راست سے بھٹکی ہوئی مسلم قوم کو سیدھا راستہ دکھایا، انہیں حال کی پستیوں کا احساس دلاتے ہوئے ماضی کا روشن آئینہ دکھاتے ہوئے ایک شاندار مستقبل کی تعمیر پر آمادہ کیا، اقبال ایک ایسے عظیم شاعر تھے، جو صدیوں کی گردش کے بعد پیدا ہوتے ہیں، اور جن کی عظمت کو نہ گردشِ زمانہ دھندلا سکتی ہے اور نہ تاریکیئقبر، بے شک 21 اپریل 1938 کو خودی کا درس دینے والا یہ چراغ بجھ گیا، لیکن نوجوانوں کے لیئے مستقل ایک پیغام چھوڑ گیا کہ پاکستان کی صورت جو چراغ روشن ہے اقبال کے شاہینوں کو اس کی حفاظت کرنا ہو گی بنا رکے، بنا تھکے کہ۔۔۔۔
پُر دم ہے اگر تُت تو نہیں خطرہء اُفتاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
 

Rehana Parveen
About the Author: Rehana Parveen Read More Articles by Rehana Parveen: 17 Articles with 20635 views میرا نام ریحانہ اعجاز ہے میں ایک شاعرہ ، اور مصنفہ ہوں ، میرا پسندیدہ مشغلہ ہے آرٹیکل لکھنا ، یا معاشرتی کہانیاں لکھنا ، .. View More