عشق کی انتہاء

عشقہ ایک جڑی بوٹی ہے، وہ جس درخت پہ چڑھتی ہے اسے خشک کر دیتی ہے۔اسی مماثلت کے پیش نظر اس کیفیت کو بھی عشق کا نام دیا گیا۔ کیونکہ یہ مرض بھی جس کو ہوتا ہے اسے خشک کر دیتا ہے۔طب کی رو سے عشق مالیخولیا کی ایک قسم ہے جس میں انسان ہمیشہ کسی محبوب یا پسندیدہ شئے کا تصور ہر وقت باندھے رہتا ہے اسی کا خیال، اسی کا ذکر، اسی کی شکل و صورت ہر وقت پیشِ نظر رہتی ہے اس کے سبب کسی ایک شئے کے تفکرات اور خیالات کی کثرت ہے۔ اس سے احتراقِ روح ہوتا رہتا ہے اور رطوبت خشک ہوتی رہتی ہے۔ اور خون بھی جل جل کر سودائے محرقہ بنتا رہتا ہے۔ یبوست بڑھتی رہتی ہے۔ اور یبوست کا خاصہ ہے کہ جو شکل قبول کر لیتی ہے وہ پھر مشکل سے چھوڑتی ہے۔ لہذا عشق میں جو خیالات قائم ہو جاتے ہیں، وہ نکل نہیں پاتے۔اس موضوع پر آج اس لئے لکھنا پڑھ رہا ہے کہ مسلسل ایک مہینے سے میں دیکھتا آرہا ہوں کہ جب بھی وٹس ایپ نیوز گروپ کھولتا ہوں کوئی نہ کوئی محبت کے تختہ دار پر لٹکاہوتا ہے۔ عشق کی یہ بیماری بہت عام ہوگئی ہے اور آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں موجود مرد و خواتین سمیت بچوں کی رگوں میں گل مل رہی ہے اوراس سے پیدا ہونے والے نتائج بھی سامنے آتے جارہے ہیں کچھ نتائج میں آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چھتا ہوں ،کچھ دن پہلے کی بات ہے لاہور عسکری فور میں انیتہ نامی عورت نے اپنے تین بچوں کے منہ پر جائے نماز رکھ کران کی زندگی کے چراغوں کو ہمیشہ کے لئے بجھا دیا ،انیتہ جس کی سات سال پہلے طلاق ہوچکی تھی اور وہ کسی کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھی ،جس پر وہ مرتی تھی وہ نام نہاد عاشق اپنی معشوقہ کو بچوں کے ساتھ قبول نہیں کر رہا تھا اور عشق کی انتہاء بھی دیکھئے محبوبہ نے اپنے عشق کو پانے کے لئے اپنے پھول جیسے بچوں کو قربان کردیا ۔ویسے کتنی شدت ہوگی ان دونوں کی محبت میں جواپنے جگر گوشوں کو بھی قربان کرڈالا ،اس قسم کے واقعات سن کر بدن میں لرزا تھاری ھوجاتی ہے،سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ عورت کسی ان پڑھ گھرانے سے نہیں نہ ہی خود ان پڑھ جاہل ہے ۔یہ عورت اس معاشرے کی شکل ہے جس میں عشق و محبت کو لطیف مشغلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ،یہ وہ محبت ہے جس میں ایک انسان دوسرے انسان کے جسم سے لگنے کا عادی ہوجاتا ہے جیسا کہ ایک نشئی انسان نشہ کرنے کے لئے چوریو اور دیگر وارداتکرنے پر مجبور ہوجاتا ہے-

بلکل اسی کا ایک رُخ یہ بھی ہے لیکن اس کا نشہ انسان کو روحانی و جسمانی طور پر تباہ کردیتا ہے۔ پھر اسی بدن تک پہنچنے کے لئے وہ کئی بدن قربان کردیتا ہے ،وہ کئی رشتوں کو آگ لگا دیتا ہے،اس جسم کی حرارت اپنے جسم میں منتقل کرنے کے لئے وہ ایک دائرہ توڑ دیتا ہے۔یہ وہ عشق ہے جس میں بڑی بڑی قسمیں کھائی جاتی ھیں جس میں اسلام کے دائرہ کار(نکاح) کے بجائے گھر سے بھاگ کر محبت کی پیاس بجھانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔عشق کی سب سے پہلی باقاعدہ اور جامع تعریف افلاطون نے کی کہ کائنات کی جملہ موجودات حسنِ ازل کی جانب کشش محسوس کرتی ہیں۔ یہی کشش عشق کہلاتی ہے۔افلاطون کا متعین کردہ عشق کی اس تعریف کی مزید تفصیل سکندریہ کے مشہور فلسفی فلاطینوس نے پیش کی کہ''انسانی روح عالمِ ہست و بود میں آ کر مادے کی اسیر ہو گئی ہے اور اپنے مبداء کے فراق میں تڑپتی رہتی ہے۔ تجرد اور ریاضت کی زندگی گزارنے سے روح مادے کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔عشق پر مزید کچھ کہنے سننے سے پہلے ایک غلط فہمی دور کرتا چلوں بہت سے لوگ پیار / محبت اور عشق کو ایک ہی چیز کے مختلف نام سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس جذبے یا کیفیت کے مختلف درجے ہیں اور اپنی ماہیت و کیفیت و خاصیت میں بالکل مختلف ہیں پہلا درجہ میلان ہے کسی پر کسی کی طرف مائل ہونادوسرا درجہ رجحان ہے کہ کسی کو دوسروں پر ترجیح دینے لگیں،تیسرا درجہ پیار یا محبت ہے،چوتھا درجہ عشق ہے جب یہ پیار یا محبت اپنی انتہا کو چھوئے تو عشق کی حدود شروع ہو جاتی ھے،پانچواں درجہ جنون ہے جب عشق اپنی انتہا پر پہنچے تو متاثرین کی لگامیں عشق سے جنون کے ہاتھ میں چلی جاتی ہیں بدقسمتی سے ہمارے یہاں جو بھی عشق کرتا ہے ظالم حد سے بڑھ جاتا ہے اتنے وعدے اور دعوے کرتا ہے کہ اس کو پھر پورا نہیں کرسکتا ،انیتہ کی طرح بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو کئے گئے وعدوں کو پورا کرجاتے ہیں۔اصل میں اس معاشرے میں لوگ عشق و محبت کو صرف دو بدنوں کے ملاپ ،چومنا،اپنی جسمانی خواہشات کو پورا کرنے تک محدود رکھتے ہیں اور یہی سب کچھ پانے کے بعد وہ پھر اپنے لئے بھاگنے کا راستہ ڈھونڈتے رہتے ھیں اور اسں میں کامیاب بھی ہوجاتے ھیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کی اپنی پیاس بجھا کر دوسروں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیتےھیں وہ بھاگنے کی کوشش کرتےھیں مگر ایک نہ ایک دن اس تمام قصے کا نتیجہ آجاتا ہے اور وہ خود اسی جال میں آکر پھنس جاتے ھیں۔یہاں صرف نیم عاشق پائے جاتے ہیں جو ان دراجات،ان کی ذھانت، ان کے اثرات اور کیفیات سے قطع نظر بس عشق عشق کا ورد کیے جاتے ہیں کسی پر مائل ہونے کو بھی عشق کہتے ہیں رجحان ہو یا پیار ہواسے عشق ہی کہا جاتا ہے۔پرانہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا جب دو عاشق ملتے تھے وہ دونوں میں برابر کی شرمساری ہوتی تھی اور جب کوئی ان کو ان کے عشق کے حوالے سے بات کرتا تو اپنے اوپر کے سولہ دانتے نیچے والے سولہ دانتوں سے ملا کر ہونٹوں سے چھپا لیتے اور سر نیچاکرتے۔مگر آج کے عشق میں اتنا تاؤ ہے کہ عشق میں سرجھکانہ عشق میں ناکامی تصور کی جاتی ہے۔جدید دور ہے لوگوں نے محبت کو کھلونہ بنا کے رکھ دیا ہے نہایت آسانی سے موبائل یا فیس بک کے ذریعے لیلیٰ ڈھونڈتے ھیں اور چند روپوں کا بیلنس ڈلوا کراس کو اپنا بنالیتے ہیں اوروصال تک پہنچنا پھر اولاد نرینہ کی شکل میں وصولی مگر اس ساری کہانی میں نہ کوئی ایکشن نہ تھرل ہاں البتہ بعض اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان موبائل پہ جس لڑکی کو اپنے خوابوں کی پری سمجھ رہا ہوتا ہے وہ پری نہیں بلکہ ایک لڑکا ہوتا ہے جس کا تعلق پیسے بٹور گروپ سے ہوتا ہے جو عاشق کو ملاقات کے جھانسے دے کر اس کے پیسوں کو ہوا کر دیتا ہے ایسا ہی واقعہ کل پنجاب میں رونما ہوا تھا ایک پیر جو خواتین کو محبت میں کامیابی پانے کے لئے طرح طرح کے ٹپس دیتا تھا اور وہاں پیر صاحب کے کمرے میں جو ہوتاتھا وہ کیمرے کی آنکھ محفوظ کرتی ریئ اور پھر مختلف ویب سائٹس کو دے کر پیسہ کما لیتا جس کو ایف آئے اے نے کاروائی کے دوران گرفتارکرلیا تھا ویسے عشق میں کبھی کبھی پیر کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے بندہ عشق میں کامیاب ہو نہ ہو یہ تو یاد کر کے اپنا ٹائم پاس کردیتا ہے کہ فلا ں پیر نے اتنے لئے فلاں نے اتنے وغیرہ وغیرہ اور ویسے بھی عشق میں ناکامی کے بعد عاشق کو ایسے کام میں لگنا چاہیئے کہ وہ اپنا دھیان بدل دے ورنہ بھابی کی یاد ستائے گی۔آپ لوگوں نے شائد دیکھا یا سنا ہوگا جب کیبل پر عشق بھری فلم لگتی تھی تو لوگ بڑے شوق سے دیکھ رہے ہوتے ھتے اب اس میں ایک ایسا منظر آجا تا ہے کہ لڑکا ٹرین پر چھڑگیا ٹرین آہستہ آہستہ روانہ ہوگی اب لڑکی کا ہاتھ اس کے باپ کے ہاتھ میں ہے لڑکی ہاتھ چھوڑنا چاہتی ہے اور باپ چھوڑنہیں رہا دوسری طرف ٹرین تیز ہوتی جا رہی ہے اب دیکھنے والا ٹی وی سکرین سے باہر بے صبری اور گبراہٹ کے عالم میں دانتوں میں ناخن لئے دل دبادب دھڑکتا جا رہا ہے ،اگر دیکھنے والا عشق کے دریا میں کھویا ہے تو وہ اکثر رو جا تا ھے یا اللہ سے ان کے ملنے کی دعائیں بھی کرتا ہے حتیٰ کہ اس کو پتہ بھی ہوتا ہے کہ یہ صرف خیالی محبت ہے اور ان کی محبت کو تاؤ دے رہا ہے مگر وہ فلمی محبت کو اپنی محبت سے تشبیح دے کر ان کے لئے دعا گو ہوتا ہے ۔اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے جب ڈرامے یا فلم میں عاشقوں کے ساتھ کوئی برا برتاؤ کرتا ہے جیسے خدا اور محبت میں لڑکی ایمان کے والد مولوی صاحب جس نے ان کے سارے عشق کا ستیا ناس کیا تھا لوگ ان کو بدعائیں دیتے رہے ۔

عشق چیز ہی ایسی ہے کہ جتنا کرتے جاؤ مزہ آتا جائے گا یہ ناختم ہونے والی کہا نیاں ہے بس ہمیں یہاں فُل سٹاپ دینا چاہیئے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ؔ ؔ عشق کے دریا ں میں قدم سوچ کے رکھنا
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے۔

اسی طرح محبت میں بہت کچھ کر گزرجانے کے بعد بندے کو واپسی کا راستہ نہیں ملتا جس کو شاعر نے اپنے الفاظ میں سمیٹتے ہوئے کچھ یوں کہا ہے کہ
میں زندگی کے راستے پہ یوں بکھر جاتا
اگر ایک روز بھی اپنی تنہائی سے ڈرجاتا
کل سامنے منزل تھی اور پیچھے اس کی آواز
رکتا تو منزل جاتی چلتا تو بچھڑجاتا۔۔۔۔

Islam Mohmand
About the Author: Islam Mohmand Read More Articles by Islam Mohmand: 14 Articles with 24691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.