موت کی طرف کھلی کھڑکی

وہ کرسی سے اُٹھا اور دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈال کر جماجما کر قدم رکھتا کھڑکی کی طرف بڑھا وہاں پہنچ کریوں باہر دیکھنے لگا جیسے اس کی کوئی قیمتی چیز کھڑکی سے باہرگر پڑی ہو۔

کمرے میں پھیلی گھنی خاموشی اس وقت ٹوٹی جب کرسی پر بیٹھے ہوئی شخص نے سگریٹ سلگایا تو ’’دو ‘‘بار تیلی رگڑ نے کی آواز اور شعلے کی لپک سے کمرے میں پھیلی خاموشی کے پلّو کو آگ لگ گئی مگر وہ یوں نہی کھڑکی کے سامنے کھڑا مسلسل باہر دیکھتا رہا کچھ دیر بعد بولا: ’’میرا خیال ہے مجھے کوئی قتل کرنا چاہتا ہے۔‘‘کرسی پر بیٹھے ہوئی شخص کے چہرے کی حیرانی سگریٹ کے دُھوئیں میں ڈوب گئی تو وہ بولا۔آخر تمہیں کوئی کیوں قتل کرنے لگا ؟

ہر بات کی کوئی نہ کوئی وجہ بھی تو ہوتی ہے۔وہ پینٹ کی جیبوں سے ہا تھ کھینچ کر جھکا اور کھڑکی کے چوکھٹ پر کہنیاں نکاتے ہوئے بولا،وجوہات تو کئی ہو سکتی ہیں۔شہر کے بہت سے لوگوں کو میرا وجودنا گوار گزرتا ہے۔کچھ احباب ابھی تک میری شخصیت سے سمجھوتا نہیں کر پائے۔ بہت سے ایسے ہیں جو میری تنقید سننا پسند نہیں کرتے۔ ایک دہ ایسے بھی ہیں جن سے میری وفاداری اُن کے دوستوں اور دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھا تی ۔ بھت سے لوگوں کو میری باتیں کڑوی لگتی ہیں ۔ کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ میں انہیں ملنے نہیں جاتا ، اور پھر ’’وہ ‘‘بھی تو وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، وجوہات کا کیا ہے ؟

کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے پہلو بدلااور بولاکسی کو قتل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں، اس لیے تو صبح سے سوچ رہا ہوں کے قاتل نے مجھے قتل کرنے کیلئے کیا منصوبہ بنایا ہوگا ۔ کہاں قتل کرے گا ؟ کیسے قتل کرے گا؟ایک بات تو یہ ہی سمجھ میں آتی ہے کہ ہو سکتا ہے وہ مجھے اس وقت قتل کرے جب میں بیڈمنٹن کھیل رہا ہوتا ہوں۔کرسی پر بیٹھا ہوا شخص بھی قدرے متفکر ہو گیا ۔اِتنے میں اُس نے کھڑکی کے چوکھٹے پر سے کہنیاں اُٹھائیں اور اُنہیں باربار ملتے ہوئے بولامجھے قتل کرنے کا ایک اور موقع بھی ہوسکتا ہے ۔کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر فوراََ اپنی نظریں وہاں سے ہٹائے ہوئے بولا ۔کیا تمہیں یقین ہے کہ کوئی تمہیں قتل کرنے لیے موقع کی تلاش میں ہے؟

ہاں مجھے یقین ہے۔ اب میرے مخالفوں کے لیے مجھے قتل کرنے کے سوا اور کوئے چارہ کار نہیں رہا ۔وہ میرے خون کے پیاسے ہیں ۔ اس نے ہاتھ جھٹک کر کہا اس لیے تو میں سوچ رہا ہوں کہ کہیں قاتل مجھے اُس وقت قتل نہ کردے جب میں اُس لڑکی سے ملنے جاتا ہوں ۔جس سے میں بے حد پیا ر کرتا ہوں اور اُس سے ملے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اُس لڑکی کو ورغلاکر میرے قتل پر آمادہ کرے اور جب وہ میرے لیے چائے بنا کر لائے تو اُس میں زہرملا دے ۔ میرے خیال میں میرے قاتل نے یہ اندازہ لگایا ہوگا کہ میں اُس لڑکی سے کس حد تک محبت کرتا ہوں ۔ اگر وہ میرے سامنے بھی چائے میں زہر ملا کر مجھے کہے کہ اُسے پی لو تو میں اِنکار نہیں کروں گا ۔کیا وہ تمہارے قتل میں شریک ہو سکتی ہے؟ کرسی پر بیٹھے ہوئی شخص نے سگریٹ کا آخری کش لے کر اُسے ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے پوچھا۔

اس نے پھر اپنا منہ کھڑکی کی طرف پھیر لیا اُور دُونوں ہاتھ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ان پر پھیلی قسمت کی لکیروں کو آنکھوں سے ٹٹولتے ہوئے بولا ۔ایسا ہو سکتا ہے لیکن مجھے امید نہیں کہ وہ میرے قتل میں شریک ہوگی کیونکہ میری جدائی کا تصور اُس کی آنکھوں سے آنسو بن کر چھلک پڑتا ہے۔ وہ میرے لیے رُو دیتی ہے۔․کیا تم سُن رہے ہو ۔ میں کہہ رہا ہوں میرے لیے رُو دیتی ہے۔ اگر تم نے اسے میرے لیے رُوتے ہوئے دیکھا ہے تو تم میری بات کی سنجیدگی کا صحیح اندازہ کر سکتے ۔ جو آنسو میں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا تھا، وہ اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا آنسو تھا ۔ اُس ایک آنسو سے دنیا بھر میں موجود اور آنے والے وقت کی محبت کی ساری کہانیان لکھی جا سکتی ہیں۔ میں نے آج تک اِس قدر صاف اور شفاف آنسو نہیں دیکھا وہ دنیا کے سارے سمندروں سے گہرا اُور خوبصورت تھا ۔میں نے سنا ہے کہ اتنے صاف اور شفاف آنسوہمیشہ سچی آنکھوں میں گھر بناتے ہیں ،وہ تھوڑی دیر کے لیے چپ ہوگیا۔

کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے سگریٹ کا لمبا کش لیا اور شاید یہ سوچ کر کہ وہ اپنی محبت کی باتوں میں بہت ذیادہ مہو ہو گیا ہے اُور اپنے قتل کا خوف بھول گیا ہے اُسے ایسی ہی باتوں میں لگائے رکھنے کے لیے کہنے لگا میں نے بھی سنا ہے کہ جس عورت کی آنکھ کا آنسو میلا نہیں ہوتا وہ دل سے محبت کرتی ہے۔

وہ ایک دم اُس کی طرف پلٹا اور جیسے پھٹ پڑا۔ اُس کی آنکھ میں میرے لیے آیا ہو اُ وہ صاف اور شفاف آنسو مجھ پر قرض ہے، میں نے اِتنا سچا آنسو اپنی ذندگی میں پہلی بار دیکھا تھا اور وہ بھی شاید پھلی بار روئی تھی یا پھر بچپن میں اُس وقت روئی ہوگی جب اُس نے بالیاں پہننے کے لیے کان چھندوائے ہوں گے ۔ ایک لمحے کے لیے وہ رُکا اور بولا ۔

تم نے دیکھا ہوگا کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں بڑے شوق سے اپنے کان چھدواتی ہیں جب پہلی بار اُن کے کان سے آر پار ہوتی ہے تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔لڑکیوں کی ذندگی میں پہلی بار محبت کرنا اور بالیاں پہننے کے لیے کان چھدوانا ایک ہی بات ہے ،یکدم اُس کی سوچ کا رخ بدلا اور جیسے کوئی بھولا ہوا مسافر یہ اندازہ ہو جانے کے بعد کہ وہ غلط راستے پر نکل آیا ہے واپس پلٹا اور بولا․ قاتل اُس سے رابطہ تو قائم کر سکتا ہے۔

کرسی پر بیٹھے ہوئی شخص نے سگریٹ کے دو تیں لمبے کش لیے اور بولا ․․․ جو باتیں اس کے بارے میں تم نے مجھے بتائی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو پھر تم کس طرح یہ سوچتے ہو کہ وہ تمہارے قتل میں شریک ہو جائے گی، میں یہ اس لیے سوچتا ہوں کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے وہ کسی سے بدلہ لینے کے لیے مجھ سے محبت کر تی ہے یہ ہو سکتا ہے ایسے ہی کسی لمحے میں کوئی اسے میرے خلاف سازش میں شریک کرلے۔

کرسی پر بیٹھے ہوئی شخص نے سگریٹ سلگایا اور بہت سا دُھواں چھوڑتے ہوئے اُسے پھر باتو ں میں لگانے کی کوشش کی ۔ لگتا ہے تمہیں اُس کی آنکھیں بہت پسند ہیں ۔ اُس نے گلا صاف کیا اور بولا، وہ دیکھتی بہت اچھا ہے ۔ اس کا دیکھنا مجھے مار جاتا ہے ۔ وہ ساری کی ساری اپنی آنکھوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ میرے خیال میں اس کا دیکھنا دنیا میں سب سے اچھا ہے ۔ جب وہ میرے طرف دیکھتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میرے سوا اُس کا دنیا میں کوئی نہیں۔کھڑکی سے باھر دن دھل رہا تھا اور جھینگر کی آواز کھڑکی کے راستے اندر آکر کمرے کے کونے میں بیٹھ گئی تھی ۔ وہ اب پھر مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ کرسی پر بیٹھا ہوا شخص مسلسل سگریٹ پی رہا تھا ۔ کچھ دیر تک وہ دونوں جھینگر کی آواز میں گم رے پھر وہ کھڑکی سے ہٹا اور ایش ٹرے میں پڑے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑوں پر نظر جماتے ہوئے بولا ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میرے قتل میں شریک نہیں ہوسکتی ۔ مگر ایک خیال یہ آیا ہے کے کہیں قاتل نے مجھے راہ چلتے قتل کرنے کا منصوبہ نہ بنایا ہو۔کرسی پر بیٹھے ہوئی شخص نے پہلو بدلا ،ٹھوڑا سا مسکرایا اور بولا ۔ دیکھتے نہیں شہر میں قدم قدم پر تو پولیس کھڑی ہے وہ اس طرح کیسے کرسکتا ہے ۔تم خواہ مخواہ فکر مند ہو رہے ہو ۔ بے شک شرط لگالو وہ تمہیں راہ چلتے کبھی قتل نہیں کر سکتا۔ میں آج تک شرط اور لاٹری کبھی نہیں جیتا۔ مگر تمہاری بات میں وزن ہے۔ اس نے ماتھے پر آئے ہوئے بال پیچھے ہٹائے اور بولا ․ تو پھر اس کا مطلب ہے کہ مجھے میرے دفتر میں قتل کرے گا ۔دفتر کے لوگ تمہارے ساتھی اور دوست ہیں ، کرسی پر بیٹھے ہوئی شخص نے منہ سے دُھواں اُگلتے ہوئے کہااِن کی بھی سُن لو اُس نے آنکھیں گھمائیں اور یوں لگا جیسے قاتل اُس کی آنکھوں میں گھوم رہا ہے ۔ یک دم اس نے اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کرلیں اور کھڑکی کی طرف منہ پھیرتے ہوئے بولا میرے سامنے والے کمرے میں میرا افسر بیٹھتا ہے۔ وہ تو ویسی ہی مجھے فائلوں پر قتل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، اُسے میری شخصت سے چڑ ہے۔قاتل نے یے بھی معلوم کر لیا ہوگا کہ میرے کمرے کی کھڑکی گھنے جنگل کی طرف کھلتی ہے اور مجھے قتل کرنے کے بعد کھڑکی کے راستے بھاگنے میں بھی اسے آسانی رہے گی ۔ دفتر میں مجھے قتل کرنے میں یہ آسانی ہوگی کہ قاتل آسانی سے فرار ہو سکے گا۔کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے جیب سے رومال نکالا اور اُس سے چہرہ صاف کرتے ہوئے بولا۔ تم خواہ مخواہ فکر مند ہو رہے ہو۔ دفتر میں کوئی اِیسے جرائت نہیں کر سکتا ۔ اِردگرد اور بھی بہت سے لوگ ہوتے ہیں قتل کی غرض سے آیا ہوا شخص پکڑا بھی جا سکتا ہے۔

وہ چپ رہا ۔اب ٹِڈی کی آواز میں شامل ہو گئی تھی اور کمرا ان کی آوازوں سے بھر گیا تھا ۔ باہر دن پوری طرح ڈھل چکا تھا اور پرندے گھونسلوں کی طرف لوٹنا شروع ہوگئے تھے ۔ وہ اب بھی کھڑکی سے باہر نظریں جما کھڑا تھا ۔کسی پرندے کی آواز سُن کر وہ فضا میں دور تک دیکھتے ہوئے بولا ۔تو پھر کیا وہ مجھے لائبریری یا سوئمنگ پول پر قتل کرے گا؟

کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے اُکتا کر ا نگرائی لی ۔ سگریٹ کا لمبا کش لے کر اسے ایش ٹرے میں بُجھا دیا اور جیب میں ہاتھ کر اپنا پستول نکالا اور اسے میز پر رکھتے ہوئے کرسی سے اٹھا اور بولا، تمہیں قتل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم تو خود ہی ․ اور پھر جملہ اُدھورا چھوڑ کر تیزتیز قدم اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔
 

Gada hussain Chandio
About the Author: Gada hussain Chandio Read More Articles by Gada hussain Chandio: 6 Articles with 8155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.