خدا کے نام کا نعرہ لگا کر لوٹ لیتے ہیں!

ہر طرف جھوٹ ، فریب کا بول بالا ہے ، ریاکاری کا کھیل اپنے عروج پر ہے ۔ ریاکاری کے بارے میں آگہی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اگر ہم تاریخ کے اوراق گردانیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی بڑے راہ نماء گزرے ان کی زندگی سادگی اور کٹھنائیوں میں گزری ، اور انہیں کی بدولت آج کئی جگہوں پر ہم آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس دنیا میں سب سے عظیم اور سپریم لیڈر محمد ﷺ ہیں جنہیں دنیا کی تمام آسائشوں کا لالچ دیا گیا لیکن انہو ں نے اﷲ کیلئے اور ہمارے لئے دنیاوی لذتوں کو ٹھکرا کر حق اور سچ کا راستہ چنا ، تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت تک اگر کسی شخصیت کے خلاف سب سے زیادہ کتابیں لکھی جا چکی ہیں تو وہ محمدﷺ کی ذات ہے اور اگر دنیا میں کوئی سب سے با اثر شخصیت تسلیم کی جاتی ہے تو وہ بھی محمدﷺ ہیں ۔لیکن آج جیسے جیسے دنیا نے ترقی کی منازل طے کیں اور وسائل میں اضافہ ہوا وہیں انسان سکوں کا بھی متلاشی نظر آتا ہے ، دنیا کی ہزار ہا نعمتیں ہونے کے باوجود وہ چین نہیں پاتا کہ اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ ریا کاری ہے ۔سلطنتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت عالمِ اسلام کے بڑے سنہرے دور گزرے ہیں جب ہر جگہ مسلمانوں کی بادشاہی تھی اور امن قائم تھا لیکن اگر ہم دونوں کے زوال کا سبب تلاش کرنے نکلیں تو منطق اور دلائل تو بہت سے ملیں گے لیکن ان کی تباہی و بربادی کے اسباب کچھ تھے توصرف ریاکاری اور شخصیت پرستی ۔ اﷲ تعالیٰ وحدہٗ لاشریک ہے اور اسے تکبر ذرہ برابر بھی پسند نہیں ریاکاری تکبر کی دوسری شکل ہے جسے قائم رکھنے کیلئے انسان واقعی ان حدود سے گزر جاتا ہے جو نہ صرف انسانیت کے خلاف ، حیوانیت کی غماز ہوتی ہیں بلکہ لعنت اﷲ کی بھی مؤجب بنتی ہیں ۔لیکن! بے شک انسان ہی خسارے میں ہے ، اﷲ نے ہم سے پہلی قوموں پر عذاب نازل کئے ، فرعون کی نعش کو زمین و دریا کسی نے قبول نہیں کیا ، اس کے بعد ہر ہر صدی ہر ہر سال ہر ہر مہینے میں عبرت کی نشانیاں اﷲ کی جانب سے رونما ہوتی رہیں لیکن ہم ہی دانش و فکر سے آزاد ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم پسپا ہیں ، ہمارے ذہنوں میں وہن بھرا جا چکا ہے جو کہ اﷲ کی طرف سے ، آج شام ، عراق ، کشمیر، فلسطین ہر جگہ مسلمان پسپائی کا شکار ہیں کیوں کہ ہمارے دلوں میں اﷲ کے ڈر کے سوا کفار کا ڈر بیٹھ گیا ہے ، ہم کسی طور اپنی ریاکاری کو ختم یا کم نہیں کر سکتے ۔ حالیہ دور میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے دعویداروں کے حالات کا مبہم سا جائزہ لیں تو سب باتیں واضح ہوتی ہیں کہ لوگ جھوٹی شان و شوکت اور ریا کاری کو قائم رکھنے کیلئے کس حد تک پاپڑ بیلتے ہیں ، تاریخ سے ذرہ برابر عبرت نہیں سیکھی اور انہیں نام نہاد پادشاہوں کے قدموں پر چل رہے ہیں جو اپنی عیش و عشرت کو قائم رکھتے ہوئے رعایا کی تو بہت دور ملک کے بارے میں بھی سوچنے سے قاصر ہیں ۔ حالیہ ن لیگی جمہوری حکومت میں اس کا عنصر بہت زیادہ ملا جس کی حقیقتیں آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہی ہیں ، آخری خلیفہ کا دور یاد آ رہا ہے جسے ہلاکو خان نہ صرف پسپا کیا تھا بلکہ اسے قالین میں لپیٹ کر اس پر سے گھوڑے دوڑا کر مروایا تھا ، اصل میں ، میں یہاں ہلاکو خان کو ہیرو نہیں بنا رہا بلکہ اس عذاب کے بارے میں متنبہ کرنے جا رہا ہوں جو بہت قریب آنے والا ہے کیونکہ مستعصم بااﷲ نے اپنے برتن تو سونے کے بنا رکھے تھے جن میں خوراک کھاتا تھا اور ہر وقت عیش و عشرت میں لتھڑا رہتا تھا لیکن اس کی رعایا بہت مجبور اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی تھی ، ان تاتاریوں کے فتن کے بارے میں آپﷺ نے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا لیکن افسوس کہ مسلمان سوئے رہے اور اب جس فتنے کے بارے میں آپ ﷺ نے پیشین گوئی کر رکھی ہے وہ بھی بہت قریب دکھائی دیتا ہے لیکن ہم سو رہے ہیں ، بس اگر کچھ ضروری ہے تو صرف ریا کاری ،ہمیشہ جب لوگ مظلوموں کی بجائے ظالموں کا ساتھ دینے لگ جائیں تو اﷲ انصاف کرتا ہے ، بے شک اﷲ کی لاٹھی بڑی بے آواز اور اس کی پکڑ بڑی مضبوط پکڑ ہے ۔میاں نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے وزارت برائے خارجی امور اپنے پاس کیوں رکھی اس کی غمازی ان کی ملوں سے پکڑے جانے والے را ایجنٹس اور مودی کے ساتھ ہونے والے کاروبار کا پول کھلنے سے ہوئی۔ اس کے علاوہ جو ابھی آئندہ جے آئی ٹی والیم میں پول کھلیں گے وہ الگ سے یہاں تک اسرائیل جیسے ممالک میں بھی کاروبار سے پردہ اٹھنے والا ہے ۔موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جن کا اپنا کاروبار ائیر لائن کا ہے کے ہوتے ہوئے پاکستان ائیر لائن تو خسارے میں پڑی ہے لیکن ان کی اپنی بلیو ائیر لائن اس وقت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے ، اسی طرح دیگر وزراء کے کاروباری سٹیٹس کا جائزہ لیں تو نتیجہ اس سے مختلف دکھائی نہیں دے گا۔کل جو جنوبی پنجاب کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی جاگے اور دو ماہ پہلے استعفیٰ دے کر نئے صوبے کے قیام کا نعرہ بلند کیا یہ پہلے چار سال دس ماہ سوئے رہے اور آج جب دیکھا کہ عوام کچھ ہم سے مانگ رہی ہے اور ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے تو عوام کے ہمدرد بن گئے ہیں ، ان سے کوئی پوچھے کہ چلیں جنوبی پنجاب کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی لیکن آپ کے کاروبار اور نجی معاملات کو تو سدھا ر دیا گیا ہے۔کیا سونے کی چمچ منہ میں لے کر حکومتیں کرنے والوں نے اس بات کی بھی فکر کی ہے کہ جب زندگی میں کٹھن مرحلہ آئے گا تو پنپنے کیلئے کیا راستہ اپنائیں گے؟ اس کا مقابلہ کریں گے یا بھاگ جائیں گے؟؟؟اس وقت ن لیگ کے پاس اپنی ساکھ بچانے کیلئے ایسے ہی کچھ راستے بچے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سے بچانے کیلئے وہاں کچھ کرنا چاہتی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہاں نظریاتی نہیں شخصیتی ووٹ ہیں اس لئے ان چند مہروں کو پہلے بغاوت کروا رہی ہے اور پھر یہی کام کر کے ان کو راضی کرے گی اور عوام بھی ان سے راضی ہو گی کہ واقعی ہمارے نمائندوں نے ہمارے لئے حکومت وقت سے ٹکراؤ کیا ہے ۔ حالانکہ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جنوبی پنجاب کو جب صوبہ بنانے کی بات کی جاتی ہے تو وہا ں سے کتنا ٹیکس کاروباری اور اشرافیہ جمع کرواتے ہیں ؟ شاعر رمضان نجمی نے کیا خوب فرمایا :
ہمیشہ خواب جھوٹے سے دکھا کر لوٹ لیتے ہیں
کہانی نت نئی ہم کو سنا کر لوٹ لیتے ہیں
ریاکاری ذرا سی بھی نہیں یہ چھوڑتے نجمی
خدا کے نام کا نعرہ لگا کر لوٹ لیتے ہیں
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166838 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More