مال ودولت جیت گئی ۔۔عزت نفس ہار گئی

چوہدری نثار کی تلخ بیانیاں اور راز افشانیاں ، شریف خاندان کی ہٹ دھرمیاں ، لیگی رہنماؤں کی فلک شگاف آرائیاں اور اپوزیشن جماعتوں کی بے سرو پا معرکہ آرائیاں نئی بات نہیں البتہ اب کے چوہدری نثار کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے اس سے بالاتر کہ ان کے ترجمان نے اس بیان کو الجھانے کے لیے اردو انگریزی سہارا لے لیا ہے مگر کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمیشہ کی طرح سچ چوہدری صاحب کی زبان سے پھسل ہی گیا ۔اس پر مختلف آراء سننے کو ملیں یہاں تک کہ میاں صاحب سے بھی صحافیوں نے اس کا تذکرہ کر دیا اور میاں صاحب کا جواب تو اپنے اندرمزید کئی سوالات اور انکشافات سمیٹے ہوئے ہے ۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ن لیگ میں اختلاف رائے کی آزادی اب ختم ہو چکی ہے اس سلسلے میں انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ : میاں نواز شریف کی نا اہلی سے پہلے میں میاں صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ میاں صاحب میں نے آپ میں ایک تبدیلی دیکھی ہے پہلے جب میں آپ سے بات کرتا تھا تو مجھے آپ کے چہرے پر’’ فرعونیت‘‘ نظر نہیں آتی تھی مگر ان چار سالوں میں میں نے جب کوئی تلخ بات کی آپ کے چہرے پر’’ فرعونیت‘‘ نظر آئی ۔اس پر میاں صاحب نے کہا کہ مجھے آپ کے جذبات کا احساس ہے آپ نے میرے ساتھ بڑی وفا داریاں کی ہیں ۔آپ یہ باتیں نیک نیتی سے کرتے ہیں اور اس کو جاری رکھیں ۔چوہدری نثار اب لفظ ’’فرعون ‘‘ بارے مخمصے میں ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ اردوکا فرعون نہیں تھا بلکہ انگریزی کا (frown) تھا جس کا مطلب ’’نا پسندیدہ ‘‘ہے ۔جب اس پر میاں صاحب سے استفسار کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اب کسی سے کوئی امید نہیں رکھنا چاہتے ۔

یہی بات تو ہم نے لکھ لکھ کر صفحے کالے کر دئیے کہ سیاسی انانیت اور بے راہ روی نے پاکستان کو تختہ مشق بنا رکھا ہے ۔آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ آپ کو 20 کروڑ پر حکمرانی آزمانے کے لیے دی گئی ہے کیونکہ وہ کبھی دے کر آزماتا ہے اور کبھی لیکر آزماتا ہے اور اس کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں پاتا کہ دنیا مکافات عمل ہے ۔اور کسی شاعر نے خوب کہا ہے :
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے

سازش کا نام دیکر خدائی سزا کو جھٹلایا جا رہا ہے۔ حالانکہ میاں صاحب کا دور حکومت گواہ ہے کہ خوشامدیوں کی آشیر باد میں دنیاوی لذتوں میں یوں گم رہے کہ چادر اور چار دیواری کا تحفظ پامال ہوگیا اور گڈ گورننس کا خواب ادھورا رہ گیا ۔ خوشامدیوں اور خدمت گاروں کو یوں نوازا کہ اہلیت اور قابلیت بھی شرما گئے اور انتہا تب ہوئی جب قریب المرگ جسٹس سعید الزماں صدیقی کوپیرانہ سالی میں گورنر بنا دیا مگر احاس یا خفت کی معمولی سی جھلک بھی چہرے سے نظر نہیں آئی بلکہ اپنے ہر غلط فیصلے اور کرم و عنایت پر فخریہ کہا گیا کہ آپ کو ملکی ترقی بری لگتی ہے کیونکہ آ پ کو عمران فوبیا ہو چکا ہے حالنکہ تنقید کو مشعل راہ سمجھنا چاہیے تھا مگر خوشامدیوں اور درباریوں نے سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ یقیناً اب کے مورخ لکھے گا کہ درباریوں کے غلط مشوروں ، خوشامدیوں کی بے جا خوشامد اور من مانیوں نے پینتیس سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا یہی وجہ ہے کہ چوہدری صاحب کا انٹریو سن کر مجھے وہ بادشاہ یاد آگیا جس نے تین سوالوں میں زندگی کا مطلب سمجھا دیا تھا مگر یہ واقعات اور نشانیاں ان کے لیے ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور جن کے دلوں پر ہوس کی مہر لگی اور اور کانوں میں لالچ کا میل جمع ہو اور آنکھوں پر مفادات کی پٹی ہو ان کے لیے رحمت الہیٰ نہیں عزاب الہی کا وعدہ ہے ۔

قارئین کرام ! پرانے وقتوں کی بات ہے کہ بادشاہ کو جنگ میں غیر معمولی فتح ہوئی اور ویسع و عریض سلطنت قبضے میں آگئی لہذا بادشاہ کا موڈ اچھا تھا ۔وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا کہ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟ وزیر نے تھوڑا شرماکر گھبرا کر سر نیچے کر لیا ۔ بادشاہ نے زور دار قہقہ لگایا اور کہا :’’تم گھبراؤ مت بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاؤ ‘‘۔وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا :’’ حضور! آپ دنیا کی سب سے خوبصورت سلطنت کے مالک ہیں ،میں جب بھی یہ دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش اٹھتی ہے کہ اگر اس میں سے دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا اور پھر کسی اور چیز کی خواہش یا جستجو میرے دل میں نہ ہوتی جبکہ آپ کے پاس سب کچھ ہے پھر بھی آپ خوش نہیں ،بے چین ہیں اوردوسری سلطنتوں کو پانے کے لیے تگ و دو بھی کرتے رہتے ہیں ۔‘‘یہ کہہ کر وزیر خاموش ہوگیا ۔بادشاہ نے قہقہ لگایا اور بولا : ’’میں اگر تمہیں آدھی سلطنت دے دوں تو ‘‘؟ وزیر نے گھبرا کر بادشاہ کی طرف دیکھا اور ڈرتے ڈرتے بولا :’’بادشاہ سلامت! یہ کیسے ممکن ہے ،میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں ‘‘؟بادشاہ نے فوراً احکامات لکھنے کا حکم دیا :اپنے پہلے حکم میں اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا مگر دوسرے حکم میں وزیر کا سر قلم کرنے کا حکم دے دیا ۔وزیر اور درباری دونوں احکامات پر ششدر رہ گئے ۔بادشاہ نے احکامت پر مہر لگائی اور وزیر کو کہا :تمہارے پاس تیس دن ہیں ،تمہیں ان تیس دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں اگر تم نے مقررہ وقت میں سوالات کے جواب تلاش کر لئے تو تم آدھی سلطنت کے مالک بن جاؤگے اور اگر تم ایسانہ کر سکے تو تمہارا سر قلم کرکے چوراہے میں لٹکا دیا جائے گا ۔میرے تین سوالات یہ ہیں : پہلا سوال :انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے ؟دوسرا سوال : انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے ؟ تیسرا سوال :انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے ؟ان احکامات کے بعد بادشاہ نے نقارے پر چوٹ لگوائی اور با آواز بلند فرمایا :’’تمہارا وقت اب شروع ہوتا ہے ‘‘۔وزیر نے یہ سنا اور محل سے دوڑ لگا دی ۔اس نے رات تک ملک بھر کے دانشور ،ادیب ،مفکر اور پیروں الغرض تمام ذہین سمجھے جانے والے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے یہ سوالات رکھ دیے ۔ دانشور بحث کرتے رہے ، مفکر فہم و فکر میں ڈوبے رہے ، ادیب لفظوں کو پرکھتے رہے اور ذہین سوالات سے الجھتے رہے ۔وزیر دانشور بڑھاتا رہا مگر کوئی بھی سوالات کا معقول جواب نہ دے سکا اور سبھی ناکام ہوگئے ۔اب وزیر نے مایوس ہو کر سلطنت چھوڑ دی اور جوابات کی تلاش میں جنگلوں میں بھٹکنے لگا ۔کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہ ملا ۔ملکوں ملکوں گھوما ، شہر وں اور جنگلوں کی خاک چھانتا رہا مگر کوئی بھی اسے ان سوالات کے جواب نہ دے سکا ۔اس کے کپڑے پھٹ گئے ،چہرے کے خدو خال بگڑ گئے ، جوتے پھٹ گئے ،پاؤں میں چھالے پڑ گئے اور شاہی شان و شوکت گرد و غبار میں کھو گئی اور وہ فقیر وں سے بھی بدتر حالت میں نظر آنے لگا ۔موت کا خوف اسے رکنے یا چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا اور وہ مسلسل بھٹک رہا تھا کہ آخری دن آگیا ۔فرمان کے مطابق وزیر کو کل دربار میں پیش ہونا تھا ۔ وہ تھکا ہارا مایوس واپسی کے لیے چل پڑا ۔وزیر کو یقین تھا کہ اس کا زندگی کا آخری دن ہے اور صبح اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم عبرت نگاہ بن جائے گا ۔وہ گرتا پڑتا جا رہا تھا اور پیاس نے بھی بے حال کر رکھا تھا ۔نظر اٹھا کر دیکھا توقریب ہی ایک فقیر کی جھونپڑی تھی ۔ وہ جھونپڑی تک پہنچ گیا اور دیکھا کہ : فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا جبکہ اس کا پاس ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور اس کا کتا دودھ پی رہا تھا ۔

فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی تو مسکرایا اور بولا : تم ٹھیک جگہ آئے ہو ،تمہارے تیں سوالوں کے جوابات میرے پاس ہیں ۔وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے ؟َفقیر نے اپنی پوٹلی اٹھائی اور وزیر سے کہا :اسے دیکھو تمہیں سمجھ آجائے گی ۔وزیر نے دیکھا تو اس میں وہ پوشاک تھی جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزرا کو عنایت کرتا تھا ۔ وزیر نے حیرت سے فقیر کی طرف دیکھا تو فقیر نے کہا : تم ٹھیک سمجھے ہو ،میں بھی تمہاری طرح وزیر تھا اور میں نے بھی بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کی تھی جس کا نتیجہ سامنے ہے ۔وزیر نے دکھی دل سے پوچھا : کیا آپ کو بھی سوالوں کے جواب نہیں ملے تھے ؟فقیر نے قہقہ لگایا اور بولا : میرا معاملہ تم سے مختلف ہے کیونکہ میں نے جواب تلاش کر لیے تھے ۔میں نے آدھی سلطنت کو ٹھکرایا ،بادشاہ کو سلام کہا اور یہاں چلا آیا ۔

میں اور میرا کتا مطمئن زندگی گزار رہے ہیں ۔ وزیر حیران ہوا مگر وقت کم تھا اس لیے فوراً پوچھا کیا آپ مجھے ان سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں کیونکہ میرے سر پر موت ناچ رہی ہے ۔فقیر بولا : میں تمہیں پہلے دو سوالوں کے جواب مفت دونگا مگر تیسرے سوال کے لیے تمہیں مجھے قیمت ادا کرنا ہوگی اور جو میں مانگوں گا وہ دینا ہوگا ۔وزیر کے پاس ہاں کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔سو اس نے حامی بھر لی ۔فقیر یوں گویا ہوا : دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔انسان کوئی بھی ہو کچھ بھی ہو وہ اس سچائی سے بچ نہیں سکتا اس نے تھوڑا توقف کیا اور بولا انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ زندگی ہے ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کے اس کے دھوکے میں آجاتا ہے ۔فقیر کے دونوں جوابات نا قابل تردید تھے ۔وزیر خوش ہوگیا اورتیسرے سوال کے لیے شرط پوچھی ۔فقیر نے قہقہ لگایا ،کتے کے آگے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا اور وزیر کو دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں تیسرے سوال کا جواب تب تک نہیں دونگا جبتک تم یہ دودھ کا پیالہ نہیں پی لیتے ۔ وزیر کے ماتھے پر پسینہ آگیا ۔ نفرت اور کراہت سے اس نے پیالہ زمین پر رکھ دیا ۔وہ کسی بھی قیمت پر کتے کا جھوٹا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا ۔فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا :تمہارے پاس دو راستے ہیں کہ تم انکار کر دو اور شاہی جلاد تمہارا سر تن سے جدا کر دے یا تم یہ دودھ پی لو اور جان بھی بچ جائے اور آدھی سلطنت بھی مل جائے ۔وزیر الجھ چکا تھا کیونکہ ایک طرف کتے کا جھوٹا دودھ تھا اور ایک طرف جان و مال تھا ۔ آخر جان و مال جیت گیا اورعزت نفس ہار گئی ۔ وزیر نے کتے کا جھوٹا دودھ اٹھا کر پی لیا ۔ فقیر نے قہقہ لگایا اور کہا: میرے بچے ! انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے جو اسے کتے کا جھوٹا دودھ پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہی وہ سچ ہے جسے میں جان لیا کہ جوں جوں میں زندگی کے دھوکے میں آؤنگا میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاؤنگا اور جتنا موت کو فراموش کرونگا اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاؤنگا یہاں تک کہ عزت نفس پر مال و دولت
حاوی ہو جائے گا۔

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.