زیارت: خطرات میں گھرا صنوبر کا جنگل

مارچ کے مہینے میں جب پاکستان کے بیشتر حصوں میں درجۂ حرارت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے تب بھی وادیِ زیارت کا علاقہ چوتیر برف سے ڈھکا رہتا ہے۔

زیارت ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کا پہاڑی شہر ہے۔ اور یہ 72 سالہ بختاور بی بی کا آبائی شہر بھی ہے۔ وہ اس برف پوش پہاڑیوں اور صنوبر کے جنگل کے درمیان اپنے گھر سے باہر کی دنیا کے بارے میں نہیں جانتی ہیں۔
 

image


صنوبر کا یہ جنگل اپنی انوکھی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اپنی قسم کا دوسرا سب سے بڑا جنگل ہے۔ یہاں کے درخت دنیا کے قدیم ترین پیڑوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کا سبب ان کا سست رفتاری سے بڑھنا اور زیادہ دنوں تک زندہ رہنا بتایا جاتا ہے۔

ایک کم روشن اور ٹھنڈے کمرے میں بختاور بی بی صنوبر کی لکڑیاں چولھے میں ڈال رہی تھیں۔ جب میں ان کے گھر میں داخل ہوئی تو وہ کھانا بنانے کی تیاری میں تھیں۔
 

image


انھوں نے میری جانب رخ کرتے ہوئے کہا: 'اس بار سردی بہت سخت تھی۔ بچنا مشکل تھا۔ہمارے یہاں گرم پانی کا نظام نہیں ہے اور کھانا پکانا تقریباً ناممکن تھا۔'

جب انھوں نے لکڑيوں میں ماچس کی تیلی لگائی تو ان کا چہرہ روشن ہو اٹھا۔

انھوں نے کہا: 'جاڑوں میں لکڑیاں اکٹھا کرنا اور انھیں جلانا بھی ایک مشکل کام ہے۔'
 

image


وہاں لکڑی کے علاوہ ایندھن کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور وہاں کے سینکڑوں باشندوں کو آگ کے لیے درخت کاٹنے کے علاوہ دوسرا چارہ نہیں۔

وہ اس بات سے بے خبر پیڑ کاٹتے ہیں کہ وہ دنیا کی سب قیمتی حیاتیاتی وراثت کو تباہ کر رہے ہیں۔

لیکن وہاں میر افغان عالم جیسے چند لوگ بھی ہیں جو اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس کا پاس بھی رکھتے ہیں۔

افغان عالم ایک رضاکار اور 'جونیپر یونائٹڈ کونسل' کے صدر ہیں۔ یہ کونسل ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو کہ صنوبر کے درختوں کے تحفظ کے لیے بیداری پیدا کرنے میں سرگرم ہے۔
 

image


ان کا خیال ہے کہ محکمۂ جنگلات اپنا کام نہیں کر رہا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: 'محکمۂ جنگلات کا دفتر جنگل کے بیچ و بیچ قائم ہے اور سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور وہ اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔

زیارت ضلعے کا پہاڑ گہرے سیاہ جنگلوں سے گھراب تھا لیکن اب وہ بنجر مٹی کا ڈھیر ہے اور یہاں وہاں اکا دکا درخت نظر آتے ہیں۔ تبدیلی نمایاں ہے اور جنگل تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔

افغان عالم کا کہنا ہے کہ محکمۂ جنگلات ہر سال تین بار درخت لگانے کی مہم چلاتا ہے۔

انھوں نے کہا: 'گزشتہ دس برسوں سے یہ صنوبر کے درخت لگانے کی مہم چلا رہا ہے لیکن آپ وہاں ایک بھی نیا پیڑ نہیں دیکھیں گے۔
 

image

'یہ ان کی تصاویر لینے کا موقع ہوتا ہے۔ درحقیقت جنگل کو بچانے کی ان کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔'

لیکن محکمۂ جنگلات ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ جہاں افغان عالم بات کر رہے تھے۔ اس سے تقریبا ایک کلومیٹر کے فاصلے پر محکمۂ جنگلات نے ایک نئی نرسری لگائی ہے۔

صنوبر کے ختم ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس کے بڑھنے کی رفتار بہت سست ہے اور اسی لیے صنوبر کے جنگل کے تحفظ کا کام مزید مشکل ہو گیا ہے۔

محکمۂ جنگلات کے ڈویزنل افسر افراسیاب خان نے بتایا: بیج کی نمو پزیری بہت کم ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ صرف پانچ سے دس فیصد بیج ہی بچ پاتے ہیں۔ انھیں درکار زمین اور درجہ حرارت فراہم کرنا بھی بہت مشکل ہے۔
 

image

محکمۂ جنگلات نے 20 ہزار پودے لگائے جس میں سے صرف دو ہزار ہی بچ سکے۔

صنوبر کی لکڑیوں کا مکان بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہرنائی، پشین اور لورالائی جیسے پڑوسی اضلاع میں بھی چھتوں اور دروازوں میں ان لکڑیوں کا استعمال ہوتا ہے۔

افغان عالم نے کہا: 'جاڑوں میں جب سینکڑوں خاندان دوسرے علاقوں میں منتقل ہوتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ صنوبر کی لکڑیاں بھی لے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ مفت ہے انھیں اس کی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی ہے۔'

بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، قحط سالی، بارش اور برف باری میں بے قاعدگی نے بھی جنگل کو نقصان پہنچایا ہے۔ مقامی افراد کھیتی کے لیے بھی جنگل کاٹ رہے ہیں اور انھوں نے صنوبر کی جگہ پیسہ کمانے کے لیے پھلوں کے باغ لگائے ہیں۔
 

image

جنگل میں بعض درخت چار ہزار سال پرانے ہیں۔ یونیسکو نے اس علاقے کو 'حیاتیاتی ذخیرہ' قرار دیا ہے۔ ماہرین اسے زندہ باقیات کہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے مطالعے کا یہ بہترین وسیلہ ہو سکتے ہیں۔

لیکن جنگل کے بچنے کی امید رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر چند کے صنوبر کے درخت کاٹنے پر پابندی ہے اور اس کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہے لیکن اس کا بے روک ٹوک کاٹنا جاری ہے۔

کچھ حد تک یہ معقول بھی نظر آتا ہے کہ جو صوبہ اس قدر غربت اور تشدد میں ڈوبا ہو وہاں حیاتیاتی تنوع کا تحفظ ترجیحات میں کیونکر شامل ہو سکتا ہے۔

شمائلہ جعفری - بی بی سی اردو، زیارت بلوچستان


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

Ziarat District is located at 30° 22' 51 N, 67° 43' 37 E with an altitude of 2453 meters and is a famous holiday resort of Balochistan. A living fossils of Ziarat, Junipers forests, which are also found in Zarghoon mount and some other mounted areas of Balochistan and famous for being the second largest Juniper forest in the world, which covers an area of about 999.60 hectares.