عبدالستار ایدھی کے انسانیت پر احسانات۔۔۔!

عبدالستار ایدھی اس شخصیت کا نام ہے جو کہ خدمتِ خلق کے جذبہ کا ایک سمندر ہے جو چند الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا اور نا ہی کیا جا سکتا ہے ۔ پہلے عبدالستار ایدھی کی زندگی پر کچھ نظر ڈالتے ہیں عبدالستار ایدھی بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوے اور بچپن میں ہی اپنے دوستوں اور غرباـکی مدد کا جذبہ رکھتے تھے گیارہ سال کی عمر میں ہی انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کاکام سمبھال لیا تھا جو کی شدید قسم کی ذیابطیس کے مرض میں مبتلا تھیں اِس چھوٹی سی عمر میں ہی انکو دوسروں کی مدد کرنا آگیٔ تھی ۔ اور اسی کام کو انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ وہ سادگی کی بھی بہت عظیم مثال تھے ۔ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جوتے کا ایک جوڑا بیس سال تک استعمال کیا۔ حالانکہ ایدھی فاؤنڈیشن کا بجٹ تب بھی کروڑوں میں تھا لیکن اس میں سے اپنی ذات پر ایک پیسا بھی خرچ نہی کرتے تھے ۔ عبدالستار ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی سے جب بات ہویٔ تو انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ افغانستان میں جب ایدھی فاؤنڈیشن کا افتتاح کیا جانا تھا تواس تقریب کے لیے کچھ کرسیا ں درکار تھیں کیونکہ مہمان اور صحافی وغیرہ تشریف لاے ہؤے تھے تو عملہ نے کچھ کرسیاں خرید لیں جس بات پر ایدھی صاحب خاصے مرہم ہؤے اور کہا کہ یے رقم کسی ضرورت مند پر بھی خرچ کی جا سکتی تھی اور اس رات ایدھی صاحب وہاں پر موجود کلینک کے فرش پر ایمبولینس کے ڈرایٔورز کے ساتھ ہی سوگے۔۔!

داڑھی رکھنے کی بنیاد پر کچھ لوگ انہیں مولانا کہ کر پکار لیتے تو وہ ذاتی طور پر اسے ناپسند کرتے تھے۔ کیونکہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے انکو ڈاکٹری کی اعزازی سند دی گیٔ تھی ۔

عبدالستار ایدھی کی سادگی کا ایک اور واقعہ یے بھی تھا کہ جب انکو ایک کاروباری شخصیت کی طرف سے امداد دی گیٔ تو انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جسکو وہ خود ڈرایٔو کیا کرتے تھے ۔ عبدالستار ایدھی صاحب حکومت کی طرف سے امداد نہیں لیتے تھے کیونکہ وہ یے سمجھتے تھے کہ انکی امداد مشروط ہوتی ہے ۔

جنرل ضیاــء الحق اور اطالوی حکومت کی طرف سے دی گیٔ امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کر دی تھی۔ عبدالستار ایدھی صاحب کی خدمت کے جذبہ کو سراہتے ہؤے مخیَر حضرات نے انکی دل خول کر مدد کی اور پھر اس امداد کی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ایک ڈسپنسر ی آغاز میں خول رکھی تھی۔
پھر اس عمارت میں زچگی کے لیے سنٹر اور نرسنگ اسکول بنایااور یہیں سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کیا ۔ آہستہ آہستہ ا ﷲتعالی کی مدد سے عبدالستار ایدھی صاحب کامقصد اس حد تک کامیاب ہو گیا کہ ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی بیشتر علاقوں میں پھیل گیٔ۔ اسی طرح اسپتال اور ایمبولینس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈبنک، یتیم خانے اور لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز بھی قایٔم کیے ۔ عبدالستار ایدھی صاحب ان سب مراکز اور امدادی کاموں کی نگرانی ازخود کیا کرتے تھے ۔
لیکن کیا ہی بات ہوتی کہ ہماری پاکستانی قوم عبدالستار ایدھی صاحب کے احسانات کو مانتی مگر افسوس سے کہنا پڑرہاہے کہ لوٹ مار کرنے والوں نے عبدالستار ایدھی صاحب کے گھر کو بھی نہیں بخشا اور 3 جنوری 2016 کو انکے گھر لوٹ مار کرتے ہؤے وہ سب امانتیں لے اُڑے جو کہ مختلف لوگوں نے انکے پاس رکھوایٔ تھیں ۔ تو یہاں پر یہ کہنا کافی ہے کہ ہماری قوم نے ایسے عظیم انسان کی رسوایٔ کا سامان اپنے ہاتھوں سے کیا جسکے احسانات لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ لیکن اِ س انسان کا بڑاپن دیکھو کہ وہ جاتے جاتے بھی اپنی آنکھو ں کا عطیہ ہماری قوم کے ضرورت مند افراد کے لیے دے گیا اور دنیاکے عظیم لوگوں میں اپنا نام لکھوا گیا۔۔!
اک ہم آہنگی تھی جسم وجان میں کہ سب ترتیب سے چلتاتھا
تیری جدایٔ نے میرے نظم و ضبط کو درہم برہم کرگیا۔۔!

Osama Sadique
About the Author: Osama Sadique Read More Articles by Osama Sadique: 35 Articles with 25047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.