ہم تو گم راہ جوانی کے مزوں پر ہیں

ایک سلپ دینا ، انہوں نے میٹھے اور دھیمے سے لہجے میں کہا۔ میں نے سر اٹھایا تو ایک چالیس پینتالیس سالہ خاتون استقبالیہ کے کاؤنٹر پر میرے سامنے کھڑی تھیں۔ جی آنٹی؟’’ اپنی ایج بتا دیجئے گا پلیز‘‘۔ بس یہ کہنا تھا کہ وہ تو آپے سے ہی باہر آگئیں۔ ایسے لگا جیسے میں نے ان سے عمر نہ پوچھی ہو بلکہ بھڑوں کے چتھے میں ہاتھ ڈال دیا ہویا کوئی ننگی سی گالی دے دی ہو۔ پہلے تو انہوں نے خوب ناک سکیڑی اور پھر غصے سے پھنکارتے ہوئے بولیں : ’’او ہیلو!! کہاں سے آنٹی لگتی ہوں ہاں؟ میں نے ان کے بپھرتے انداز سے ڈرتے ہوئے پیشہ ورانہ معذرت کی اور کہا: سوری باجی غلطی ہو گئی۔ آپ اپنی عمر بتا دیں تا کہ میں سلپ بنا دوں ۔ انہوں نے غصے سے لبریز لہجے میں بڑبڑاتے، منمناتے ہوئے پچیس سال بتائی ، اور میں سوچنے لگاکہ دِکھتی توچالیس کی ہیں اور بتاتی پچیس ہیں ۔ پھر میں سوچنے لگاممکن ہے سات ادوار میں سے کوئی دور ہو۔

مارک ٹوئن نے کسی سے پوچھا تھا:’’کیا آپ عورت کی زندگی کے سات ادوار سے واقف ہیں؟‘‘تو جواب ملا: نہیں واقف،کون سے ہیں؟ مارک ٹوئن نے جواب دیا: ’’ بچپن، لڑکپن، جوانی، جوانی، جوانی اور جوانی اور پھر جوانی۔ویسے بھی عمر کے معاملے میں عورتوں کا ہمیشہ سے یہ رویہ رہا ہے کہ جب وہ چھوٹی ہوں تو چاہتی ہیں کہ انہیں بڑا سمجھا جائے اور جب بڑی عمر کی ہوتی ہیں تو چاہتی ہیں کہ انہیں چھوٹا سمجھا جائے۔ خیر ! میں نے سلپ بنا کے دی تو بلا ٹلی اور میں نے سکھ کا سانس لیا کیوں کہ جب تک وہ یہاں کھڑی تھیں مجھے ہی گھورے جارہی تھیں۔ جیسے نظروں ہی نظروں میں ہڑپ کر جانا چاہتی ہوں۔ شاید انہیں لگ رہا تھا کہ میں نے راز سے پردہ اٹھا لیا۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بیل بجی ، جو اشارہ تھا خطرے کا، کہ ڈاکٹر صاحب بلا رہے ہیں۔چشمہ ناک پے اوپر کیا جو ذرا سرک کر چونچ پر آگیا تھا، کپڑے وپڑے ٹھیک کیے اورجا پہنچے ڈاکٹر صاحب کے کمرہ میں ،اور ہاتھ باندھ کر مؤدبانہ انداز سے کھڑے ہوئے اور عرض کیا : جی سر؟

ڈاکٹر صاحب نے اول تو چشمے کے اوپر سے مجھے گھورتے ہوئے سر تا پا جائزہ لیا پھر بولے: بھئی عبدل!آپ عمر تو ٹھیک لکھا کریں ۔ آپ جانتے بھی ہیں کہ میں مریض کو اس کی عمر کے حساب سے میڈیسن دیتا ہوں ۔ یہ دیکھیں اب ، آپ نے فورٹی پلس کی سلپ پر عمر پچیس سال لکھی ہے جبکہ آئی ڈی کارڈ کے حساب سے چالیس، اکتالیس بنتی ہے۔میں نے سر جھکالیا اور رسماََ معذرت کی، وہ خاتو ن وہیں پر سانس کھینچے بیٹھی مجھے ہی گھور رہی تھیں۔جان چھوٹی سو لاکھوں پائے۔ میں سوچ رہا تھا، پتا نہیں خواتین اپنی عمر چھپاتی کیوں ہیں؟ شائد احساس کمتری کی وجہ سے یا کم عمر نظر آنے کے لیے؛ کہتی ہوں گی انہیں جوان سمجھا جائے۔ ویسے بعض مرد بھی اپنی عمر چھپاتے ہیں ۔ مرد کی عمر تیس سال سے کم ہواور کوئی عورت اس کی طرف مسکرا کے دیکھ لے تو وہ بھی جوابا مسکراتا ہے ، اگر چالیس سال سے اوپر کا ہو اور لڑکی اس کی طرف دیکھ کے مسکرا لے تو وہ گھبرا جاتاہے اور فورا اپنا جائزہ لینے لگتا ہے کہ کہیں اس نے قمیص یا شلوار تو الٹی نہیں پہن رکھی۔

ایک مرتبہ ایک شوہر اپنی بیگم کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ بیوی ڈرائیونگ کر رہی تھی اور انتہائی تیز رفتاری سے گاڑی چلائے جارہی تھی۔ شوہر نے تیز رفتاری سے منع کیا ، بیوی نے بات سنی ان سنی کر دی تو شوہر نے تیز رفتاری سے باز رکھنے کے لیے بیوی سے کہا:دیکھو بیگم! ’’اگر تم گاڑی تیز چلاؤ گی تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ حادثے کی خبر اخبارات میں چھپے گی اور اخبار والوں کو تو تم جانتی ہی ہو،بال کی کھال اتارتے ہیں۔ کسی بات کے پیچھے پڑ جائیں تو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں۔ اخبار والے تمہاری عمر صحیح چھاپ دیں گے۔ بیوی نے ادھر ادھر دیکھا اور رفتار کم کر لی۔

کہتے ہیں کوئی حسین عورت اگر اپنی عمر سچ بھی بتا دے تو بھی لوگ اسے سولہ یا اٹھارہ کا ہی سمجھتے ہیں۔کیوں کہ لڑکی تیرہ سال کے بعد سولہ کی ہوجاتی ہے، پھر اٹھارہ کی ، اور چالیس سال تک پھر اٹھارہ کی ہی رہتی ہے۔یہ عورتیں جوانی میں آنے والے کل کے بارے میں اور بڑھاپے میں گزرے ہوئے کل کے بارے میں سوچتی ہیں۔ کہتے ہیں اگر کسی 65 یا 75 سالہ خاتون کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ اپنی بیٹی کا خون پینے سے جوان ہوجائے گی تو وہ اس اقدام سے بھی گریز نہیں کرے گی۔یاد رہے عورت کے لیے سب سے بڑی گالی یہ ہے کہ ’’تم بوڑھی ہو رہی ہو۔‘‘ عمر سے یاد آیا: ایک ڈاکٹر نے مریض سے کہا: آپ کی عمر بس چھ ماہ رہ گئی ہے۔اس نے کہا ڈاکٹر صاحب ! یہ مختصر زندگی طویل کیسے ہوسکتی ہے؟ تو ڈاکٹر نے جواب دیا: کسی سیاست دان خاتون یا اداکارہ سے شادی کر لیں۔ اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا: کیا مطلب! اس سے میری عمر لمبی ہوجائے گی؟ ڈاکٹر نے جواب دیا: عمر تو لمبی نہیں ہو سکتی ، ہاں البتہ چھ ماہ ضرور لمبے ہو جائیں گے۔(خواتین سے معذرت لیکن اپنی عمر ٹھیک بتایا کریں اور مذکورہ بالا باتوں کو سیریس لینے کے بجائے مخولیہ سمجھا جائے)

Abdul Basit Zulfiqar
About the Author: Abdul Basit Zulfiqar Read More Articles by Abdul Basit Zulfiqar: 38 Articles with 30814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.