کرنسی کی ایجاد اور فوائد و نقصانات

سونا ، چاندی ، پیتل اور دیگر ایسی دھاتیں جن سے بنی ہوئی کرنسی مختلف اوقات میں مختلف معاشروں میں رائج رہی ہے ، یہ سب ایسی بے فائدہ چیزیں ہیں جن کو کھایا ، پیا اور استعمال میں نہیں لایا جا سکتاہے،یہ انسان کے بظا ہر نظر کسی کام کی نہیں، ان سے کوئی ایسا آلہ تخلیق نہیں کیاجا سکتا ہے جوانسانی ضرورت کو پوراکرتاہو ۔ لیکن ان دھاتوں سے بنی کرنسی نے انسانی سماج کی تشکیل اور ترقی میں بہت اہم کردا ر اداء کیا ۔ دنیا میں جن چیزوں نے انسانی سماج کو گلوبل ولیج بنانے میں اہم کردا ر اداء کیا ہے ان میں ایک چیز کرنسی کی تخلیق بھی ہے ۔ یہ کر نسی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے دنیا کے دو بالکل اجنبی آدمی ،کسی خطے سے تعلق رکھتے ہوں جب معاملہ کر تے ہیں تو لین دین کرنسی کے ذریعے کرتے ہیں ۔ اس کرنسی کے لین دین میں کسی ملک ، خطہ ، مذہب اور ذہنی و فکری ہم آہنگی کی ضرور ت نہیں ہے ، بلکہ ہر کوئی دوسرے کی کرنسی بخوشی قبول کر لیتا ہے۔

انسان ابتدائی دور میں اپنی ضروریات کے لیے خود ہی کام کرتے تھے لیکن جوں جوں سماج وسعت پکڑتا گیا اور انسانی خواہشات ضرورتیں بننے لگیں اور ضرورتوں کا دائرہ وسعت پکڑتا گیا تو انسان اپنی تمام ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خود کافی ثابت نہ ہوا ۔ اس نے ایک سماج اور معاشرے کی بنیاد رکھ دی جس میں انسان ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے لگے ۔یہ سماج کیا تھا انسانوں کے مختلف چھو ٹے چھوٹے طبقے تھے جو آپس میں مل جل کر رہتے تھے ۔ ابتدائی طور پر تویہ بغیر کسی لگے بندھے قاعدے کے ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرتے رہے ، اور اس کو اپنا اخلا قی حق سمجھا جاتا تھا کہ دوسروں کی ضروریات بھی پوری کی جائیں۔ ان مختلف طبقوں میں سے ہر ایک اپنی ضروریات زندگی میں خود کفیل ہوتا تھا ، شاید کچھ چیزیں کبھی دوسرے قبیلے کے لوگوں سے لینی پڑ جاتی ہوں لیکن یہ بھی کسی شرط یاقاعدے کے تحت نہیں لی جاتی تھیں بلکہ دوسرے قبیلہ کو جب کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو وہ ان سے لے لیتا تھا ۔ کاشت کاری اور زراعت کا انقلاب آنے کے بعد جب مختلف چھوٹے چھوٹے خطے اور گاؤں بن گئے تب بھی نظام اسی قانو ن معاونت باہمی کے مطابق چلتا رہا ۔ اس وقت تک پیشوں کے اعتبارسے انسانی سماج کی تقسیم نہیں ہوئی تھی ، کیونکہ انسانی محدود سی آبادیاں مختلف جگہوں پر بستی تھیں اس لیے کسی بھی کام کو پیشے کی شکل نہیں ملی تھی بلکہ ہر فر د یا ہر قبیلہ ہی مختلف صلاحیتوں کاحامل ہو تا تھا جس سے روز مرہ کا نظام بخوبی چل رہا تھا ۔ وقت کے ساتھ شاید ان جگہوں پر کچھ لوگ ماہرانہ کام بھی کرنے لگے ہوں لیکن اس کوکو کاروبارکی شکل نہ حاصل ہو سکی ۔ شہروں اور ریاستوں کے وجود اور سلطنتوں کے پیدا ہونے سے ایک طرح کا انقلاب بر پا ہوا اور لوگ پیشوں میں بٹ گئے ۔

جب دیہاتوں سے شہر اور سلطنتیں وجود میں آنے لگیں تو بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر انسانی سماج میں پیشہ ورانہ تقسیم بھی وجود میں آنے لگی اور ضرورتوں کے مطابق مختلف پیشے وجود میں آگئے جن میں کچھ افراد یا مخصوص مقامات کے لوگوں کو ماہر سمجھا جا تا تھا اور یہ پیشے باقاعدہ کاروباری حیثیت اختیار کر چکے تھے ۔ اب لوگ ان کاموں کوجن میں باقاعدہ پیشہ ورانہ ماہرین موجود تھے خود سے نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں انہی کی خدمات حاصل کرنے لگے ۔ کوئی فرد جو معاشرے کی کسی ایک ضرورت میں اس کا کفیل ثابت ہوتا تھا تو بہت سی اپنی ضروریا ت معاشرے سے پوری کرتا تھا ، لیکن یہ سب کچھ تبادلے کے طور پر ہوتا تھا۔ اب تک کرنسی موجود نہیں تھی اس لیے لوگ اپنے پاس موجود چیزوں کے ذریعے ان خدمات اور دیگر چیزوں کا تبادلہ کرتے تھے ۔اس تبادلے میں انسانو ں کو مشکلات پیش آنے لگیں ، کیونکہ چیزوں کی ویلیو کومتعین کرنا بہت مشکل کام ہے ۔اگر کسی ایک دو چار چیزوں کی ویلیو طے بھی کر لی جائے تو ماہر کے پاس تو روزانہ بیسیوں قسم کی چیزیں لانے والے لوگ ہوتے تھے اس لیےان سب چیزوں کی ویلیو طے کرنا ، ان کی کوالٹی اور حیثیت کا صحیح اندازہ لگانا ایک مشکل کام تھا ۔ پھر اپنے پاس موجود ومیسر چیز سے مطلوبہ چیز کو حاصل کرنا یہ بھی بسا اوقات مشکل ہو جاتا تھا ۔ ان مشکلات کے حل کے لیے انسانی سماج نے مختلف طرح کی کوششیں کیں ، ایک کوشش ایک مرکزی سطح کا ایکسچینج سنٹر تھا جہاں سے ہر چیز کا تبادلہ بآسانی کیا جا سکتا تھا۔یہ سنٹر ہر ایک سے اس کی چیزیں لے کر اس کو اس کی ضرورت کی چیزیں دیتا تھا ۔ موجودہ دور کے سوشلزم یا اس طرح کے نظاموں کی اس نظام کے ساتھ کافی مماثلت ہے ۔ اس سلسلے کی سب سے بار آور اور آسان کوشش کرنسی کی ایجاد تھی ۔انسانوں نے تبادلے کے لیے کرنسی ایجاد کی اوراس کرنسی کی ایجاد نے بہت سی کم قیمت اور بے فائدہ قسم کی دھاتوں کوبہت قیمتی بنا دیا۔کرنسی در اصل وہ دہات یا سکہ نہیں بلکہ سبھی لوگوں کا کسی ایک چیز پر جمع ہو جاناہے اور اس پر اعتماد کرنا ہے ۔ کرنسی کا سارا نظام اعتماد کے سہارے چلتاہے ۔دو مختلف علاقوں ، ثقافتوں اور مذاہب کے لوگ دراصل ایک دوسرے پر اعتما د ہی کر رہے ہوتے ہیں ۔

تین ہزار سال قبل سمیرین تہذیب میں کرنسی کی ایجاد ہوئی ۔640قبل مسیح میں انا طولیہ کی ریاست لیدیامیں تاریخ کا پہلا سکہ وجود میں آیا، اس پر اس کی قیمت اور وزن درج تھا ، اور اس اتھارٹی کا نام درج تھا جس کی جانب سے یہ سکہ رائج کیا گیا ۔ تاریخ میں سکے تبدیل ہوتے رہے لیکن ان پر موجود پیغام ایک ہی رہا ، سکہ کو تسلیم کرنا در اصل کسی بادشاہت یا اتھارٹی کو تسلیم کرنا ہےاور اس سے انکا ر کرنا یا اس میں کمی بیشی کرنادر اصل ریاست اور بادشاہت کی رٹ کر چیلنج کرنا ہوتاہےجس کو کسی بھی دورمیں قبول نہیں کیا گیا اور ہر دور میں سب سےبڑا جرم گردانا گیا ہے ۔

پیسہ اور کرنسی کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تبدل کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ یہ چیزوں کا بہترین اور ہلکا پھلکا بدل ہو سکتاہے ، کہاں آپ منوں گندم ، چاول یا دیگر اجناس لائیں اور ان کے بدل میں کوئی چیز لینا چاہیں ، اب دوکاندار یا جس کے پاس آپ کی مطلوبہ چیز ہے وہ آپ کی جنس نہیں چاہتا ہے ، یا اس کو اس کی ضرورت نہیں تو آپ کے پاس کیا آپشن رہتا ہے ؟ اگر وہ لے بھی لیتا ہے تو اس جنس کو سنبھالنا اور منتقل کرنا ایک اور مسئلہ ہے ۔ لیکن کرنسی کی ایجا دنے ان مسائل کو حل کردیا ، کرنسی چیزوں کی ویلیوطے کرتی ہے اور ان کا بدل بنتی ہے ۔کرنسی کو آپ کسی بھی مقام پر بآسانی منتقل کر سکتےہیں ، یہ چو نکہ ہر وقت اور ہر جگہ ہر چیز کے لیے کا م آسکتی ہے اس لیے لوگ دیگر چیزوں کی بنسبت اس کی چاہت زیادہ رکھتےہیں ۔ ہر جگہ اور مقام پر اس کی یکساں چاہت کی وجہ سے انسانی سماج علاقائی کی بجائے عالمی بننے لگا ۔

کرنسی کی ایک اور بڑی خصوصیت یہ ہےکہ اس کوجمع کر کے محفوظ بنایاجاسکتاہے تاکہ اگر ابھی ضرورت نہیں تو بوقت ضرورت کام آسکے ۔ بہت سی قیمتی چیزوں کوخاص کر اجناس کو محفوظ نہیں کیا جاسکتاہے، اور جن چیزوں کو محفوظ بنایا بھی جا سکتا ہے ان میں بھی کافی سارے مسائل اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں لیکن کرنسی کوبآسانی محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔ زائد کرنسی کو محفوظ بنانے سے انسان کو جہاں مستقبل کے حوالے سے آسانی ملی وہاں مستقبل کے فکر نے بہت سے مسائل اور جرائم کا منہ کھول دیا اور یوں کرنسی نے انسانوں کے لیے بہت سی مشکلات بھی کھڑی کردیں ۔ ایک دور تھا جب انسان جانوروں کی مانند دن بھر کی خوراک کو شکار وغیرہ کے ذریعے تلاش کرتے تھے اور رات کو سکون کی نیند سو جاتے تھے ، انسان کی اپنی ملکیت کوئی نہیں تھی اس لیے لڑائیاں اور فسادات نہیں ہوتے تھے لیکن جب زراعت کا دور شروع ہوا اور انسانوں کی ملک کا تصور پیدا ہو ا تو فسادات اور لڑائیوں نے جنم لیا ، یہی فساد ات اس وقت زور پکڑ گئے جب انسانوں نے کرنسی کوایجاد کیا ، اب مختلف طرح کے جرائم چوری ، ڈاکہ اور غصب وغیرہ وجود میں آگئے ۔ نظام کی درستگی اور اصلاح کے لیے جب حکومتیں آئیں تو ان کی اور سلطنت کی حفاظت کے لیے فوجیں وجود میں آ گئیں ۔ اب انسانوں نے خود ہی اپنے آقابنانے شروع کر دیے اور آہستہ آہستہ ان کی غلامی کی لکیر مضبوط ہوتی گئی ۔کرنسی کی ایجا دنے ٹیکسوں کاایسا مضبوط سسٹم متعارف کروایا جو ہر دور میں رائج رہا ، کرنسی کی وجہ سے ٹیکس وصول کرنا نہ صرف ممکن ہو ا بلکہ اس کو بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیا جا سکتاتھا۔ ایک لڑائیاں اور فسادات اس طرز کے تھے جو زرعی دور کے ساتھ ہی شروع ہو گئے تھے اور کرنسی کی ایجاد نے ان کو مزید مضبوط بنایاتھا ۔ لیکن ایک لڑائیاں وہ تھیں جو خالص کرنسی کی ایجاد سے شروع ہوئی تھیں ، اپنا سکہ چلانے اور اپنی کرنسی کو ہر جگہ رواج دینے کے لیے جنگیں ہوئیں ۔ غرض تجارت اور جنگوں نے کرنسی کا ایک عالمی نظام متعارف کروادیا اور کرنسی ہر جگہ چلنے لگی ۔

کرنسی سے صرف جنگیں اور جرائم ہی نہیں پیدا ہوئے بلکہ کرنسی سے سچے جذبوں اور رشتوں کا بھی قتل ہو گیا ۔ پیسوں کو جمع کرنا اور مستقبل کی فکر وخو ف نے انسا نی سماج میں ہر چیز کی قیمت لگادی حتیٰ کہ رشتوں کو بھی کرنسی کے تول میں ہی تولاجانے لگا ، یہاں آکر انسان یہ بھول گیا کہ رشتے ، جذبے اور احساسات ایسی چیزیں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ، ان کو پیسوں کے سہارے بنایا اور بسایا نہیں جا سکتاہے ۔ وہ انسان جنہوں نے ابتدائی معاشرہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی بنیادوں پر بسایا تھا کرنسی کی ایجاد کے بعد ایک دوسرے سے بیگانہ ہونے لگے اور آج حالت یہ ہے کہ لوگوں کو ساتھ والے گھر کی کیا حالت ہے اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی یا اس میں کون بستا ہے اس کا کچھ پتہ نہیں ہوتاہے ۔ کرنسی کا سا را نظا م اعتبار کے سہارے چلتا ہے لیکن یہ اعتبار بھی در اصل انسانوں کا انسانوں پر نہیں بلکہ یہ اعتبار صرف پیسے پر ہوتاہے اگر کسی کے پاس کرنسی ہے و ہ اجنبی کیوں نہیں ہم اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اگر کرنسی نہیں تو چاہے کتنا قریبی کیوں نہ ہو اعتبار کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، اس اعتبارمیں انسانی رشتوں اور تعلقات کی جگہ کرنسی نے لے لی ۔ کرنسی نے تمام طبقات سے ان کے اچھے جذبات چھین لیے اور اس کی جگہ لالچ ، حرص ، ہویٰ ، الزام تراشی ، چوری ، ڈاکہ اور قتل وغیرہ کو لوگوں میں عام کردیا ۔

(اس مضمون کی تیار ی میں نوح حراری کے ناول سیپین کے ایک باب پیسے کی خوشبو کو بنیاد بنایا گیا ہے )
 

Abdul Ghani Muhammadi
About the Author: Abdul Ghani Muhammadi Read More Articles by Abdul Ghani Muhammadi: 30 Articles with 31233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.