بے قراری سی بے قراری ہے (قسط نمبر ٥)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

ہم یونیورسٹی میں بیٹھے تھے کہ ہماری کلاس فیلو سارانئی کرولا گاڑی سے نکلی۔ اس کے ساتھ ایک بہت ہی ہینڈسم لڑکا تھا۔ وہ عمر میں ہم سے تین چار سال بڑا ہو گا۔ اس کی ڈریسنگ بہت اچھی اور کسی فارن برینڈ کی تھی۔ اس نے کالی گوگلز لگائی تھیں۔ اس کی شیو ایسے بڑھی ہوئی تھی جیسے فیشن کے طور پر بڑھائی ہو۔ اس کے بال بھی لیٹسٹ کٹ کے تھے۔ اس کی باڈی دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا کہ کافی ریگولر جم کرتا ہے۔ سارا اور اس کی جوڑی بہت زبردست لگ رہی تھی۔ ہم نے ساراکو پہلے کبھی اس لڑکے کے ساتھ نہیں دیکھا تھا۔ ویسے بھی ساراکی تو پچھلے مہینے ہی منگنی ہوئی تھی، یہ اس کا منگیتر نہیں تھا۔ ۔
پھر یہ کون ہے؟
میں نے اس لڑکے کوئی اتنا زیادہ گھور کر تو نہیں دیکھا۔ پھر بھی عمارہ سے بھلاکوئی بات چھپتی ہے۔ اس نے فوراً ہی مجھے کوہنی ماری۔
بس بھی کرو، کیا نظروں سے کھاجاؤ گی۔
بکو مت!میرے کان فوراً شرم سے لال ہو گئے۔
عمارہ نے اس موقع کو ہا تھ سے جائے دیے بغیر شرارت سے ایک نعرہ لگایا۔ لو جی فائنلی وہ آ گیا، جس کا سالوں سے انتظار تھا۔ لوگو یہ دن نوٹ کر لو۔ ۔ ۔
میں نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور غصے سے کہا عمارہ! کیا بیہودگی ہے۔۔ کچھ تو شرم کرو،۔ میں تو بس ایسے ہی۔ ۔ ۔ اس کے کپڑوں کے ڈیزائن کو نوٹ کر رہی تھی۔ مجھے اپنا لہجہ کھوکھلا لگا۔
عمارہ کے ہونٹوں پر شرارتی ہنسی میرا منہ چڑانے لگی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو اتنا جان چکی تھیں، کہ ایسی معمولی باتیں بھی نہیں چھپتیں۔
بات یہی تھی کہ اس لڑ کے کو دیکھ کر مجھے دل میں ہلکی سی گدگدی ہوئی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
وہ لڑکا سارا کو ڈراپ کر کے پارکنگ کی طرف چلا گیا اور وہ ہماری ہی طرف آنے لگی۔ ساراسے ہماری دوستی تو نہیں پر اچھی سلام دعا ضرور تھی۔ ایک دو پراجیکٹس میں ہم نے اکٹھے کام کیا تھا۔ عمارہ اور سارایونیورسٹی سے پہلے بھی ایک دوسرے کو جانتی تھیں۔ ان دونوں کی فیملیز سوشل گیدرنگ میں ملتی رہتی تھیں۔ ساراکے فادر کا اصل بزنس سٹیل تو کا تھا لیکن انھوں نے کافی جگہوں پر ہاتھ ڈالا ہوا تھا۔ اس کی مما بھی بزنس میں فلی انوالو تھیں۔ ساراکا ذہن بزنس میں نہیں چلتا۔ اسی لیے وہ ٹائم پاس کے لیے فیشن کی طرف آ گئی۔ وہ بڑی ہنس مکھ لڑکی تھی۔ ہر کسی کے ساتھ آسانی سے اس طرح گھل مل جاتی ہے جیسے بچپن کی دوست ہو۔ وہ ہم سے کچھ زیادہ ہی گرم جوشی سے ملی۔
ہماری رسمی سی باتیں ہوئیں۔ ماضی کے اچھے دنوں کی، فیوچر پلانز کی، وغیرہ وغیرہ۔
زیادہ باتیں عمارہ ہی کرتی رہی۔ اس کے انداز سے یہی محسوس ہو رہا تھا اصل بات کچھ اور ہے۔
پھر بات شادی پر آ گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کا منگیتر تو فوراً شادی کے پیچھے پڑا ہے۔ لیکن میں نے کہا ہے کہ تھوڑا سا منگنی کے بعد کے ٹائم کو بھی انجوائے کرتے ہیں۔ پھر بعد میں تم نے کون سا میرے نخرے اٹھانے ہیں۔
ہاں یہ تو ہے اس کے بعد انھیں ہر وقت ہم سے دور بھاگنے کی پڑی رہتی ہے۔ عمارہ نے بھی ایک چٹکلہ چھوڑ دیا۔
عبیر تمھارا کیا ارادہ ہے؟ا سارانے اچانک مجھ سے پوچھا۔
میں اس کے ڈائریکٹ سوال پر گھبرائی اور سوچنے لگی کہ اسے کس طرح کا جواب دوں۔ جو جواب ہو بھی اور نہ بھی ہو۔ اس سے پہلے میں کچھ کہتی عمارہ نے سرد آہ بھری۔
آہ!مت پوچھو بہت درد بھری داستان ہے بیچاری کی۔ اور یہ کہہ کر روہانسی سی شکل بنا کر کہنے لگی۔
ایک لڑکا پسند آیا، لیکن وہ پہلے سے ہی۔ ۔ ۔
میں فوراً گھبرا گئی، یہ مذاق میں کوئی ایسی فضول بات نہ کہہ دے۔
میں نے فوراً بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔ شادی بھی ہو جائے گی اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ پہلے میں اپنے لیے فیشن میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ ایک بار شادی ہو گئی تو پھر اس طرف فوکس مشکل سے ہو گا۔
ہاں یہ تو ہے۔ لیکن یاردیکھ لینا اس چکر میں عمر نہ نکل جائے۔
ویسے تمھاری کسی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ۔ ۔ یا دوستی۔ یو نو واٹ آئی مین۔
میں اس کی بولڈنس پر حیران رہ گئی۔ اتنا بولڈ سوال صرف عمارہ کو کرنے کی اجازت ہے۔
شاید وہ جس کلاس سے بی لونگ کرتی ہے وہاں یہ بات نارمل ہے۔ شاید وہ مجھے جج نہیں کر رہی۔ وہ خود بھی تو لڑکوں سے کھلم کھلا دوستی کرتی رہی تھی۔ ہم لوئر مڈل کلاس لوگ ان باتوں کو کچھ زیادہ ہی سیرس لیتے ہیں۔ اسے عزت غیرت کا مسئلہ بناتے ہیں۔
نہیں یار ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں لڑکیاں یہ فیصلے اپنے ماں باپ پر چھوڑ دیتی ہیں۔ وہ بہتر جانتے ہیں ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ میں نے روایتی جواب دیا۔
یار در اصل میں تم لوگوں سے ایک بہت اہم بات کرنے آئی ہوں۔ اس کا تعلق تمھارے ساتھ ہے عبیر۔
میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس کو یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد مجھ سے کیا کام پڑ گیا؟
تمھیں ہماری سینئر شمائلہ یاد ہے۔ جس نے ویلکم پارٹی میں ڈانس بھی کیا تھا۔
ہاں شمائلہ، وہ تو ہماری پروجیکٹ ایگزیبیشن میں بھی آئی ہوئی تھیں۔
شمائلہ کو ہم نے پہلی بار چار سال پہلے ویلکم پارٹی میں دیکھا تھا۔ اس نے ساری پہن کر انڈین گانے پر بہت اچھا ڈانس کیا تھا۔ اسے ڈانس اور ایکٹنگ کا بہت شوق تھا۔ بعد میں اس نے ایک دو فیشن شوز میں ماڈلنگ بھی کی۔ اس کی ساری فیملی ہی آرٹسٹ ٹائپ کی تھی۔ اس کی امی بنگالی ہونے کی وجہ سے گانے اور ڈانس کا شوق رکھتی تھیں۔ اس کے فادر بیورکریٹ تھے۔ نوجوانی میں بنگلہ دیش میں اس کی مما کے عشق میں ایسے گرفتار ہوئے کہ ساری مخالفتوں کے باوجود شادی کر لی۔ ان کے بچوں نے بھی آرٹیسٹک شوق پائے۔ شمائلہ شروع سے ہی آرٹسٹ طبیعت کی مالک تھی۔ یونیورسٹی میں اس کا سارا گروپ بھی ایسا ہی تھا۔ اس کی خوبصورتی اور شوق کو دیکھ کر یہی لگتا وہ ایکٹنگ یا سنگنگ میں ضرور نام بنائے گی۔
پچھلے سال سب کی امیدوں کے برعکس شمائلہ نے شادی کر لی۔ اس نے اپنے سارے شوق چھوڑ کر خود کو گھر تک محدور کر لیا۔ معلوم ہوا اس کی شادی کسی کاروباری خاندان میں ہوئی ہے جو کٹڑ مذہبی ہے۔ ان کی عورتیں پردہ کرتی ہیں۔ شمائلہ کا شوہر امریکہ سے ماسٹر کر کے آیا اور یہاں والد کا گارمنٹس بزنس ہینڈل کرنے لگا۔
اس کو شمائلہ اسی وقت پسند آ گئی، جب وہ ایک بار یونیورسٹی میں پروجیکٹ اییگزیبیشن پر آیا۔ وہ کافی عرصہ شمائلہ کے پیچھے پڑا رہا مگر شمائلہ نے انکار کر دیا۔ لیکن اس لڑکے کا اصرار جاری رہا۔ ایک سال بعد اچانک شمائلہ مان گئی۔ اب ان کی دو بیٹیاں ہیں جو اپنی ماں کی طرح بہت خوبصورت ہیں۔ شمائلہ نے اپنے شوق کو گھر اور شوہر تک محدود کر لیا۔
شمائلہ سے ہمارے فیملی ٹرمز ہیں۔ وہ اکثر ہمارے گھر آتی ہیں۔ آج کل وہ ایک مشن پر ہیں جس پر ہر بھابھی زندگی میں جلد یا بدیر ضرور نکلتی ہے۔ یعنی اپنے دیور کے لیے رشتہ ڈھونڈنا۔
ان کی نظر میں اچھی لڑکیوں کی کان تو صرف یہ یونیورسٹی ہے اسی لیے یہیں سے سٹارٹ کرنا چاہیے۔
سینکڑوں لڑکیوں میں ان کی نظر سب سے پہلے تم پر پڑی ہے۔ اس نے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کیا۔
کیا!!
یہ بات میری سر پر ایک بم؂ کی طرح گری۔
مجھے یاد آیا، کچھ دن پہلے وہ پراجیکٹ ایگزیبیشن پر آئی تھیں۔ اس دن انھوں نے ہمارے پاس کافی ٹائم بتایا۔ ہمارے پراجیکٹ کی کافی تعریف بھی کی تھی۔
میرا ذہن اس دن بہت زیادہ مصروف تھا۔ اس لیے ان کی باتوں کو میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ اچھا!! تو وہ مجھے رشتے کے لیے دیکھنے آئی تھیں۔
وہ خود تم سے ملنے آنا چاہتی تھیں مگر انھیں کچھ دنوں کے لیے لاہور جانا پڑ گیا۔ تو انھوں نے میرے ذمہ یہ کام لگایا کہ میں تم سے بات کر لوں۔ وہ ڈائریکٹ بات کرنے سے بھی کترا رہی ہیں، نہ جانے تمھارا ریسپانس کیا ہو۔
میرے ذہن میں بیک وقت کئی خیالات آئے۔ سمجھ نہیں آئی کہ کیا جواب دوں۔ میری کنفیوثن دیکھتے ہوئے عنبر خود ہی مزید انفارمینشن دینے لگی۔
ان کے دیور کا نام کاشف ہے۔ اس نے آئی بی اے سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسڑ کیا ہے۔ خاندانی بزنس کے بجائے اپنا کام کرنا چاہتا ہے۔ وہ آئی ٹی پراڈکٹس بنانے والی ایک کمپنی میں تجربہ حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ کہتا ہے کہ بہت جلد اپنی کمپنی کھولوں گا۔ ابھی بھی اچھا کماتا ہے۔ ہینڈسم اور فنی ہے۔ اگرچہ خاندان کی کئی لڑ کیاں اس سے شادی کرنے کو تیار ہیں۔ پر اسے کوئی پسند ہی نہیں آتی۔ کہتا ہے یہ الیٹ کلاس کی لڑکیاں مجھے بور کرتی ہیں۔ یہ دکان پر پڑی سجی ہوئی گڑیوں جیسی ہیں۔
مجھے کچھ ایسا چاہیے جو فیشن کی اس گرد سے پاک ہو۔ جو پلاسٹک کی گڑیا نہ ہو۔ اسے آج تک ایسی لڑکی نہیں ملی۔ جب اس نے یہ بات اپنی بھابھی کو بتائی۔
شمائلہ کو یہ ساری خوبیاں تمھارے اندر نظر آئی ہیں۔
میں اپنی تعریف پر شرما گئی۔ یعنی لوگ مجھے اپنے گھروں میں اس طرح یاد کرتے ہیں۔
مجھے اب بھی سمجھ نہیں آیا، کیا کہوں؟
پہلے خیال آیا کہ فوراً انکار کر دوں۔ پھر سوچا، تھوڑا روڈ لگے گا۔
کوئی بہانہ بنا دیتی ہوں۔ کہہ دیتی ہوں کہ گھر والوں نے پہلے ہی لڑکا پسند کر لیا ہے۔
یہ شمائلہ کا حسن ظن ہے جو مجھے ایسا سمجھتی ہیں۔ مجھ میں ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔ میں ایک سادہ سے لڑکی ہوں۔ ان کا دیور مجھ سے بات کرتے ہی بور ہو جائے گا۔
سارا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی۔
اس بات کا تو یہیں پر پتا کرایا جا سکتا ہے۔
وہ کیسے؟
کاشف میرے ساتھ ہی یونیورسٹی آیا ہے، اور پارکنگ میں کھڑا ہے۔ میں اسے ہیلو ہائے کے لیے بلا لیتی ہوں۔
میں چونک گئی۔ یعنی وہ گاڑی والا لڑکا کاشف تھا۔
یا اللہ ! یہ آج دن کہاں سے چڑھا ہے جو ایک کے بعد ایک انکشاف ہو رہا ہے۔ میں شش و پنج کا شکار ہو گئی۔
مجھے جواب دینے کی کشمکش سے عمارہ نے نکالا۔
ہاں ہاں بلالو۔ صرف سلام دعا سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔
میں شرما گئی اور منع کرنا چاہا، لیکن نہ کرپائی۔
میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میرا رشتہ دیکھنے کو ئی اس طرح بھی آئے گا۔
تھوڑی دیر میں کاشف آیا تو میرا کانفیڈنس بالکل لوز ہو گیا۔ مجھ سے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں گیا۔ میرا دل بہت تیزی سے دھڑکنے لگا۔ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ میں اتنی کانفیڈنس لیس تو نہیں تھی۔
اس کا انداز بہت پولائٹ اور باتوں سے اعتماد پھوٹتا تھا۔ اس نے آتے ہوئے مجھے کچھ لمحوں لیے غور سے دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں کوئی چھچورا پن نہیں، بس ہلکی سی دلچسپی دکھائی دی۔
اس نے کچھ رسمی سی باتیں کیں اس کی باڈی میری طرف رہی اور بات وہ عمارہ اور عنبر سے کرتا رہا۔ یعنی اس کی اٹینشن میری طرف ہی تھی۔ اس نے عمارہ سے ہمارے بزنس پلان کے بارے میں پوچھا، اور خوب دلچسپی ظاہر کی۔ اس کے مطابق یہ پلان کامیاب ہونا چاہئے۔ مارکیٹ میں اس وقت نئے آئیڈیاز کی ضرورت ہے۔ وہ جب بات کرتا تو اپنی باڈی لینگوج اور ایکسپریشنز سے اپنی بات کو پوری طرح واضح کرتا۔ اس کے انداز میں کوئی شوخی اور بڑائی کا ایلیمنٹ نہیں تھی۔ اس کاکلون بھی ایسا منفرد اور دھیما دھیما کہ حواس پر طاری ہو گیا۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ میں پہلی نظر میں اس سے محببت ہو گئی، لیکن وہ باقی لڑکوں سے بہت مختلف لگا۔
اس نے غیر محسوس انداز سے مجھ سے میرے بنائے ہوئے ڈیزائنز کے بارے میں پوچھنا شروع کیا اور جینوئن دلچسپی ظاہر کی۔ میں شروع میں تو نروس ہوئی۔ پر اس کے انداز نے میرا سارا ڈر ختم کر دیا۔
ہم اس گفتگو میں اتنا کھو گئے کہ خبر ہی نہ ہوئی، کب عمارہ اور ساراوہاں سے کھسک گئیں۔ میں اسے اپنی آئیڈیاز کے بارے میں بتانے لگی۔ میری فیشن کی فلاسفی کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ بہت انہماک سے سنتا رہا۔ کئی باتوں پر اس نے ایسے فنی جملے کہے کہ بے اختیار میری ہنسی نکل گئی۔ وقت گزرنے کا بھی احساس نہ ہوا۔
حیرت تھی کہ آج تک میں نے ایسا محسوس نہیں کیا۔ ہم پتا نہیں کتنی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ تبھی مجھے عمارہ اور سارہ کی موجودگی کا احساس ہوا۔ کچھ دیر بعد دونوں اجازت لے کر رخصت ہو گئے۔
ساراکے جاتے ہی عمارہ تو جیسے تیار بیٹھی تھی۔ وہ کچھ کہتی میں نے فوراً اس کے منہ پر انگلی رکھی اور کہا کہ ایک لفظ مت بولنا۔ تم سوچ میں بہت آگے جاچکی ہو۔ ہماری ساری باتیں فارمل ہی ہوئی ہیں، ویسے تمھیں شرم نہیں آئی مجھے اکیلا وہاں چھوڑ کر بھاگتے ہوئے۔
اچھا جی فارمل باتوں یوں ہنسا جاتا ہے۔ اس نے شرارتی لہجے میں کہا۔
میرے کان لال ہو گئے۔
وہ باتوں کے درمیاں ایک آدھا چٹکلا چھوڑ دیتا تھا، میں کیا کرتی۔ میں نے چہرے کے تاثرات چھپانے کے لیے منہ پھیر لیا۔
یہ بتاؤ تمھیں پسند آیا کہ نہیں؟ عمارہ نے سنجیدہ انداز سے پوچھا۔
یار پتا نہیں لیکن وہ برا نہیں ہے۔ میں نے گول مول سا جواب دیا۔
یعنی اگر وہ لوگ تمھا رے گھر رشتہ بھیجیں تو تمھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
یار! میری مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ فیصلہ تو امی ابا نے کرنا ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ یونیورسٹی کے تعلق سے میرے گھر رشتہ گیا تو ابا یہی سمجھیں گے کہ میں پہلے سے کسی کو پسند کرتی ہوں۔ اس لیے تم سارہ کو انکار کر دو۔
میں نہیں چاہتی کوئی بھی ایسی بات ہو جس کی وجہ سے ابا کے مان کو ٹھیس پہنچے۔
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی۔۔

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 28954 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.