کیا چائلڈ پروٹیکشن ڈے منانا کافی ہے ؟

 سات فروری کو حکومت پنجاب کی ہدایات پرصوبہ بھر میں چائلڈ پروٹیکشن ڈے منایا گیا۔ اس سلسلے میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی جانب سے آگاہی واک کی گئی جس میں محکمہ تعلیم،سپیشل ایجوکیشن، لیبر،سوشل ویلفیئر چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر اوردیگر محکموں کے افسران، اسٹاف اور طلباء نے شرکت کی۔ دریں اثنا ڈسٹرکٹ آفیسر چائلڈ پروٹیکشن بیورو سمیع احمدکی صدارت میں تقریب ہوئی جس میں مہمان اعزاز زونل انچارج ایدھی سینٹر ڈاکٹر عرفان تھے۔ ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ حکومت پنجاب کی ہدایت پر آج چائلڈ پروٹیکشن ڈے منایا جارہا ہے، بچوں کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ ہمارے بچے محفوظ ہوں گے تو پاکستان محفوظ ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اپنے بچوں کو بہتر تربیت کے ساتھ ساتھ بھرپور توجہ بھی دیں۔

ڈسٹرکٹ آفیسر ملک سمیع احمد نے کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو ملتان نے سال 2017 میں گھر سے بھاگے، لاوارث گمشدہ، تشدد کا شکار، بے آسرا 650 بچے حفاظتی تحویل میں لئے جبکہ 663 بچے ان کے ورثاء کی تلاش کے بعد والدین کے حوالے کئے گئے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں اس وقت 50 بچے رہائش پذیر ہیں، چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر بیورو نے گرینڈ ریسکیو آپریشن کیا اور شہر کی تمام اہم مارکیٹیں، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ بچوں کو اور گراونڈز میں بھیک مانگتے اور لاوارث حالت میں بچوں کو پکڑتے ہوئے انہیں اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔علاوہ ازیں 9گونگے بہرے بچے جو گزشتہ 4سال سے ادارے میں رہائش پذیر ہیں ان بچوں کو لاہور سے ملتان شفٹ کیا گیا جن کے ورثاء کی تلاش جاری ہے۔بچے ادارے میں رہائش پذیر ہیں۔ان تمام بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم سب اسے کافی مان کر پھر سے حالات سے چشم پوشی کرتے ہوئے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائیں اور سب جلد اچھا ہوجائے گا کہہ کے چین کی بانسری بجائیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2017کے پہلے چھ ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے تقریبا 786 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے کتنے واقعات کے ملزمان گرفتار ہوئے یا انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا یا انھیں سزائیں سنائیں گئیں اور اگر سنائیں بھی گئیں تو ان میں سے کتنی سزاؤں پر اب تک عمل درآمد ہوچکا ہے اسکے متعلق کسی صوبائی یا وفاقی ادارے کے پاس کوئی تفصیل موجود نہیں۔جبکہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی کے بعد قتل کے واقعات کے علاوہ گھریلو تشدد، کم عمری میں شادی، پیسے اور خاندانی تنازعات کے بدلے کم سن بچیوں کو متبادل کے طور پر پیش کرنے کے علاوہ چائلڈ لیبر کے تحت آنے والے کئی دیگر سنگین نوعیت کے مسائل کو بھی اس لسٹ میں ایڈ کرلیا جائے تو صرف رجسٹرڈ کرائم کی تعداد1764بن جاتی ہے اور یہ اعدادو شمار حتمی نہیں۔ حالیہ کچھ دنوں میں اعدادو شمار ہمارے اندازوں سے کئی گنا تجاوز کرچکے ہیں۔اسی سال صرف خیبر پختونخواہ میں 257بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہ تعداد تقریبا خیبر پختونخواہ کے بارہ اضلاع سے حاصل کردہ رپورٹ کے نتیجے میں سامنے آئی جبکہ رپورٹ درج کرنے اور کرانے کی شرح دس فیصدی ہے اور 90%واقعات تو سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔پاکستان کے چاروں صوبوں کے اعدادو شمار شاید اس تعداد سے خطرناک حد تک تجاوز کرجائیں۔آخر حکومت، اداروں سمیت ہم سب ایسے واقعات کو تب تک کیوں نوٹس میں نہیں لاتے جب تک کوئی بڑا حادثہ سامنے نہیں آجاتا۔

حالیہ ہی ایک تازہ خبر کے مطابق نارووال میں ایک ماں نے پیٹ کی آگ بُجھانے کے لیے مُفلسی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی 12 سالہ بیٹی کو فروخت کردیا۔مذکورہ خاتون نے باجوڑ ایجنسی کے ایک شخص صاحبزادہ خان سے 20 ہزار روپے اُدھار لے رکھے تھے۔ مزید اُدھار مانگنے پر جب صاحبزادہ خان نے انکار کیا تو خاتون نے 35 ہزار روپے کے عوض اپنی بیٹی کو فروخت کر دیا۔ مذکورہ شخص بچی کو لے کر بذریعہ بس علاقہ سے باہر جا رہا تھا کہ پولیس نے بس کو روک پر حراست میں لے لیااور اس واقعے کی مزید تحقیقات کی ہورہی ہیں۔آخر یہ ہوکیا رہا ہے محترم اور باعزت حکومتی اراکین سے میری مؤدبانہ التجا ہے کہ یہ سب آپکی ناک کے نیچے نہیں اوپر ہورہا ہے اور شفاف تحقیقات سنگین نتائج سامنے لاسکتی ہیں جن میں آپ کے اپنے ہی اعلی اور بااثر کئی اراکین شامل نظر آئیں گے۔قانون اور قانون ساز اداروں سے تو ویسے ہی مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ کبھی کوئی بیٹی، کبھی کوئی بیٹا، کبھی کسی کی جوان اولاد، کبھی اسکول بھیجے گئے بچے، کیوں شہادت کا تمغہ سجائے آجاتے ہیں،کبھی سفید کفن اوڑھے، کبھی تعفن زدہ لاش کی صورت تو کبھی کئی ٹکڑوں میں بٹی لاش کی صورت بوری میں بند، کبھی مشعال کی مانند شکستہ و ریختہ، تو کبھی زینب اور ایسی ہی کئی دوسری معصوم بچیوں کی طرح پامال روح اور بیجان جسم کی صورت آخر کیوں ہم صرف اپنے بچوں کے شکستہ لاشے ہی ڈھونے کے لیے رہ گئے ہیں۔ یہ بچے زندہ ہنستے بولتے اپنے گھر آنگن میں کیوں نہیں رہ پاتے۔صرف اس لیے کہ یہ بچے آپ کے نہیں عوام کے ہیں۔

آج تک کتنی ماؤں کی گود اُجڑی، کوئی اندازہ یا اعدادو شمار ہیں؟ آج تک کتنوں کا سراغ لگاپائے؟کہیں اسمگلنگ کا ڈرامہ کھیلا گیا تو کہیں بچوں کے اعضاء بیچنے کا فریب، کتنی ماؤں کے لخت جگر ایک مرتبہ گُم ہونے کے بعد دوبارہ کبھی نہ ملے۔ بس چند ایک کی لاشیں جو حکومتی ارباب اختیا ر کے منہ چڑاتی نظر آئیں، اور باقی تو شاید لاشیں تک غائب کردی گئیں۔ دوسری طرف ایف آئی آریں کٹتی رہیں اور کوئی پیش رفت نہ ہونے کے سبب فائلیں حکومتی دفاتر کے ریکارڈ رومز کی نذر ہوگئیں جن کے اکثر نذر آتش ہونے کی گونج بھی سنائی دے جاتی ہے۔آخر کار کب اس گھناؤنے کاروبار سے منسلک اُن ارباب اختیار کو بے نقاب کیا جائے گا جو سیکس مافیا کے اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں؟ ملک کے سیکیورٹی ادارے اس اہم پہلو کو کیوں فراموش کررہے ہیں یا پھر اس جانب تفتیش کا رُخ موڑنے ہی نہیں دیا گیا، حکومت اور اداروں کا کام ہے عوام کی جان ومال کاتحفظ کرنا اور اس سے وہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔

سوال ہماری نئی نسل کے تحفظ کو لاحق شدید خدشات کا ہے جنھوں نے اس وقت ملک بھر کے والدین کا جینا حرام کردیا ہے۔ زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات تیز کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ایسے واقعات کی شفاف تحقیقات کرکے جلد از جلد عبرتناک سزاؤں پر عمل درآمد کروایا جائے تاکہ پھر کوئی جنسی بھیڑیا ہماری نسلوں کا
خون چوسنے کی ہمت نہ کرپائے۔
تحریر: ڈاکٹر رابعہ اختر

Dr Rabia Akhtar
About the Author: Dr Rabia Akhtar Read More Articles by Dr Rabia Akhtar: 17 Articles with 11634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.