ویلنٹائن ڈے․․․․․حقیقت کیا ہے !!؟؟

ویلنٹائن ڈے ایک غیر اسلامی و غیر شرعی عمل ہے جس کو اپنا کر ہم مغرب کی تقلید کرتے ہو ئے گناہ کے مرتکب ہو تے ہیں ،کسی کی بہن ،بیوی ،بیٹی ،بہو کو تحفہ دینا ہم اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں جن کی بیوی بیٹی کو آپ تحفہ دینا فخر سمجھتے ہیں اسی طرح ان کے گھر کو کوئی آدمی اگر آپ کی بیوی بیٹی کو تحفہ یا دوستی کا اظہار کرے تو آپ کو کیسا لگے گا،یقینا آپ کی غیرت جاگ اٹھے گی اور آپ غصے سے لال پیلے ہو جائیں گے اور سب کچھ کر گزریں گے کہ میری بیوی بیٹی کو تو کون ہو تا ہے تحفے دینے والا اور دوستی کا اظہار کر نے والا،یہی بات اگر ہما رے ذہن میں آجائے کہ میں جس کو تحفہ دے رہا ہوں یا دوستی کا اظہار کر رہا ہو ں وہ بھی تو کسی کی ماں بہن بیوی بیٹی بہو ہے ،دوستو یہ غیرت کا سوال ہے ۔محبت کر نی ہے تو صرف اﷲ سے کرو ،جو محبت کر نے والوں کو انعام و اکرام سے نوازتا ہے اور ہم مغرب کی تقلید کرتے ہو ئے ویلنٹائن ڈے کو مناتے ہو ئے گناہ کے مرتکب ہو تے ہیں ،ایسی فضول رسومات و گناہ والے کا موں سے بچنا چاہیئے۔

اس دن کے بارے میں سب سے پہلی روایت روم میں عیسائیت سے قبل کے دور میں ملتی ہے جب روم کے بت پرست مشرکین 15فروری کو ایک جشن مناتے جو کہ Feast Of Lupercaoius کے نام سے جا نا جاتا ہے۔ یہ جشن وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے اعزاز میں انہیں خوش کرنے کے لئے مناتے تھے۔ ان دیوتاؤں میں (فطرت کا دیوتا)، Februata Juno (عورتوں اور شادی کی دیوی)، اور(رومی دیوتا جسکے کئی دیویوں کے ساتھ عشق ومحبت کے تعلقات تھے) شامل ہیں۔اس موقع پر ایک برتن میں تمام نوجوان لڑ کیوں کے نام لکھ کر ڈالے جاتے ہیں جس میں سے تمام لڑ کے باری باری ایک پرچی اٹھاتے ہیں اور اس طرح لاٹری کے ذریعے منتخب ہونے والی لڑ کی اس لڑ کے کی ایک دن ایک سال یا تمام عمر کی ساتھی قرار پاتی۔یہ دونوں محبت کے اظہار کے طور پر آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے اور بعض اوقات شادی بھی کر لیتے تھے۔

اس طرح ویلنٹائن کارڈز پر دکھائے جانے والے نیم برہنہ اورتیر کمان اٹھائے ہوئے کیوپڈ کی تصویر بھی ویلنٹائن کی خصوصی علامت ہے اور رومن عقیدے کی رو سے وینس (محبت اور خوبصورتی کی دیوی) کا بیٹا ہے جو کہ لوگوں کو اپنے تیر سے نشانہ لگا کر انہیں محبت میں مبتلا کر دیتا ہے او رجب روم میں عیسائیت منظر عا م پر آئی تو عیسائیوں نے اس جشن کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی اس مقصد کیلئے 14فروری کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا، جس دن رومیوں نے ایک عیسائی پادری ویلنٹائن کو سزائے موت دی تھی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ رومی بادشاہ Claudius-IIکے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل کشت وخون کی وجہ سے جنگوں کا مرکز بنی رہی اور یہ عالم ہوا کہ ایک وقت میں Claudius کو اپنی فوج کیلئے مردوں کی تعداد بہت کم نظرآئی جس کی ایک بڑ ی وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں کو چھوڑ کر پردیس میں لڑ نے کیلئے جاناناپسند کرتے تھے۔بادشاہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک خاص عرصے کیلئے شادیوں پر پابندی عائد کر دی تاکہ نوجوانوں کو فوج میں آنے کیلئے آمادہ کیا جا سکے۔ اس موقع پر ایک پادری سینٹ ویلنٹائن نے خفیہ طور پر نوجوانوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا جب اس کا یہ راز فاش ہوا تو بادشاہ (Claudius)کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور سزائے موت کا حکم دیا گیا۔ جیل میں یہ پادری صاحب جیلر کی بیٹی کو دل دے بیٹھے جوکہ ان سے ملنے آیا کرتی تھی لیکن یہ ایک راز تھا کیونکہ عیسائی قوانین کے مطابق پادریوں اور راہبوں کیلئے شادی کرنا یا محبت کرنا ممنوع تھا اس کے باوجود عیسائی ویلنٹائن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ جب رومی بادشاہ نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ عیسائیت کو چھوڑ کر رومی خداؤں کی عبادت کرے تو اسے معاف کر دیا جائے گابادشاہ اسے اپنی قربت دے گا اور اپنی بیٹی سے اس کی شادی کر دیگا تو اس نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں اس رومی جشن سے ایک دن پہلے 14 فروری 270 ء کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو ایک خط لکھا جس کا خاتمہ For your Valentine کے الفاظ سے کیا۔ بہت سے ویلنٹائن کارڈز پر لکھے جانے والے Greetings کے الفاظ For your Valentine اسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کیلئے ہیں۔

ویلنٹائن کے نام سے کم از کم تین مختلف پادری ہیں اور تمام کی موت کا دن 14 فروری ہے۔ 496ء میں پوپ Gelaslus نے سرکاری طور پر 15 فروری کے فیسٹول Lupercalla کو بدل کر 14فروری کوسینٹ ویلنٹائن ڈے منانے کا اعلان کیا اور لاٹری کے ذریعے لڑ کی کے انتخاب کی رومی رسم میں یہ ردوبدل کیاکہ پرچی میں نوجوان لڑ کی کے نام کی بجائے عیسائی پادریوں کے نام لکھے جاتے اور تمام مرد اور عورتیں ایک ایک پرچی اٹھاتے اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر مرد وعورت جس عیسائی پادری کے نام کی پرچی اٹھاتا اسے اگلے ایک سال تک پادری کے طور طریقوں کو اپنانا ہوتا تھا۔ (ماخوذ انسائیکلو پیڈیا بردٹانیکا، کیتھولک انسائیکلو پیڈیا)

ویلنٹائن ڈے اور اسلامی تعلیمات
۱۔ ہمیں ایسے تمام تہواروں سے اجتناب کرنا چاہیے جس کا تعلق کسی مشرکانہ یا کافرانہ رسم سے ہو۔ ہرقوم کا اپنا ایک علیحدہ خوشی کا تہوار ہوتا ہے اور اسلام میں مسلمانوں کے خوشی کے تہوار واضح طور پر متعین ہیں۔ اﷲ کے رسول ا نے عید الفطر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اِنَّ لِکُلِّ قَومٍ عِیداً وَہَذَا عِیدُنَا (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ العیدین، حدیث نمبر:۹۷۴۱)’’ہر قوم کی اپنی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔‘‘
۲۔ ویلنٹائن ڈے منانے کامطلب مشرک رومی اور عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ اﷲ کے رسول ا نے ارشاد فرمایا:مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَہُوَ مِنہُم (سنن ابی داؤد کتاب اللباس، حدیث نمبر:۲۱۵۳)’’جوکسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔‘‘
۳۔موجودہ دور میں ویلنٹائن ڈے منانے کا مقصد ایمان اور کفر کی تمیز کئے بغیر تمام لوگوں کے درمیان محبت قائم کرنا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار سے دلی محبت ممنوع ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ اَوْ اَبْنَاء ہُمْ اَوْ إِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیرَتَہُمْ(سورۃ المجادلۃ:۲۲)’’آپ ا نہیں دیکھیں گے ان لوگوں کو جو اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اﷲ اور اس کے رسول اکے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوں خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان کے لوگ ہی ہوں۔‘‘
۴۔اس موقع پر نکاح کے بندھن سے قطع نظر ایک آزاد اور رومانوی قسم کی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے جس میں لڑ کے لڑ کیوں کا آزادانہ ملاپ تحائف اور کارڈز کا تبادلہ اور غیر اخلاقی حرکات کا نتیجہ زنا اور بد اخلاقی کی صورت میں نکلتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ہمیں مرد اور عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیں ہے اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عفت مطلوب نہیں اور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی درکار نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اَن تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ(سورۃ النور: ۹۱)’’جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلائی جا سکے ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘
۵۔نبی ا کرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جو معاشرہ قائم فرمایا اس کی بنیاد حیا پر رکھی جس میں زنا کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم ہے مگر اب لگتا ہے کہ آپ ا کے امتی حیا کے اس بھاری بوجھ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کیلئے تیار نہیں بلکہ اب وہ حیا کے بجائے وہی کریں گے جو انکا دل چاہے گا۔فرمان نبوی ا ہے’’اِذَا لَم تَستَحیِ فَاصنَع مَا شِئتَ‘‘(صحیح بخاری، کتاب الادب، رقم الحدیث:۵۶۵۵)’’جب تم حیا نہ کرو تو جو تمہار ا جی چاہے کرو‘‘ یعنی ایسے حالات میں ہمیں عفت و پاکدامنی کو ہاتھ سے چھوٹنے نہ دینا چاہئے اور اپنی تہذیب و تمدن، ثقافت وروایات کو اپنا نا چاہیے۔اغیار کی اندھی تقلید سے باز رہنا چاہئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں ۔

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 158175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.