بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع محدود۔طلبہ مایوس

کسی بھی صوبے کی معاشرتی اور معاشی ترقی میں تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صوبے میں تعلیم کے مواقع جتنے زیادہ ہونگے ریاست اور عوام میں خوشحالی زیادہ ہوگی۔چند روز قبل جامعہ بلوچستان کے ایک اشتہار پر نظر پڑی جس میں نئے تعلیمی سال کے داخلوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ اشتہار میں مختلف شعبہ جات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں میں داخلے کا اعلان کیا گیا تھا۔جب ہم نے سال ۲۰۱۸ اور گزشتہ سال کے داخلے کے اشتہار کا موازنہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال داخلوں میں نمایاں کمی کردی گئی ہے۔ اس سال ابلاغ عامہ، اردو،فلسفہ اور فائن آرٹس کے شعبہ جات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر داخلوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جامعہ بلوچستان کے اس اقدام سے طلبہ میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ہمارے بیج کے کچھ طلبہ جو ماسٹرز کرکے فارغ التحصیل تھے اور ہم سب کا اس سال شعبہ ابلاغ عامہ میں ایم فل کرنے کا ارادہ تھا۔ ہم سب نے اس مسئلے پر جامعہ کی انتظامیہ کو بذریعہ ای میل اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ اس کے جواب میں جامعہ کی انتظامیہ نے تمام تر ملبہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پر ڈال دیا۔ ان کا موقف تھا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلوں کا اعلان ایچ ای سی کی پا؂لیسی کے مطابق کیا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ کوئٹہ شہر میں اس وقت جامعہ بلوچستان کے علاوہ بیوٹمز اور سردار بہادر خان یونیورسٹی بھی موجود ہے لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی کمی کے باعث ان جامعات میں بیشتر شعبوں میں ایم فل نہیں کرایا جارہا۔ شعبہ ابلاغٖ عامہ کے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے۔ پورے بلوچستان میں صرف جامعہ بلوچستان ہی واحد یونیورسٹی تھی جو صحافت کے مضمون میں ایم فل کی تعلیم دے رہی تھی۔تاہم اس سال طلبہ سے یہ حق بھی چھین لیا گیا۔ بلوچستان میں بیشتر طلبہ مہنگی تعلیم کے حصول کی استطاعت نہیں رکھتے۔خواتین کے ساتھ یہاں اور مسائل ہیں۔ چادر اور چار دیواری کے اصو ل کے باعث بیشتر خواتین دوسرے شہروں میں جا کر تعلیم حاصل نہیں کرسکتی۔ ان کے لئے جامعہ بلوچستان ہی واحد سہارہ ہے۔ صوبے میں طلبہ کی اکثریت تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بیروزگار ہے۔ یہ طلبہ جب جامعات میں ملازمت کرنا چاہیں تو ایک لیکچرار بننے کے لئے کم از کم تعلیم ایم فل درکار ہوتی ہے۔لیکن صوبے میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مواقع محدود ہیں۔ تو اس صورت میں پھر یہ طلبہ کیا کریں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان،وائس چانسلر اور اعلیٰ حکام کو اس مسئلے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے نئی داخلہ پالیسی مرتب کرنی چاہئے نیز ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی زیادہ شعبہ جات میں داخلے دینے چاہئے۔

Ambreen Khayyam
About the Author: Ambreen Khayyam Read More Articles by Ambreen Khayyam: 2 Articles with 1720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.