کاش پاکستان مذہب کے نام پر قائم نہ ہوتا

سنتے آئے تھے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں اور یہ کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ پاکستان میں قانون کے ہاتھ بس اتنےہی لمبے ہوتے ہیں جو غریب اور کمزور کے گریبان تک پہنچ سکیں ۔اس کا اندھا پن امیروں اور صاحبِ قوت واقتدار کے کام آتا ہے۔اس بے چارے کو مسجد اور مدرسوں میں ہونے والے جنسی تشدد، سیاستدانوں کی کرپشن، ثقافت کے نام پر کی جانے والی بے حیائیاں، افسر شاہی کی شاہانہ غفلت شعاریاں، تاجروں کی ناجائز منافع خوریاں، ہسپتالوں میں ہونے والے غیر ارادی قتل، تعلیمی اداروں میں استادوں کی 'ہڈ ×××'، عدالتوں میں پیشہ ور گواہوں کی قران پر جھوٹی گواہیاں ۔ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

ہاں اگر شاہ زیب قتل ہوجائے تو ارب پتی باپ کے قاتل بیٹے کو جیل میں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولتیں فراہم کرنا پولیس کا 'قانونی ، اخلاقی اور شرعی' فرض بن جاتاہے۔ اگر جعلی پولیس مقابلوں کا ہیرو رائو انوارکسی بے گناہ ۔ غریب اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے باپ، نقیب ،کو ماردے تو بلند دیواروں والے ہائوس اسے اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں اور باہر دُھتکاری ہوئی سول سوسائٹی کے ارکان سردی میں خالی پیٹ دھرنا دے کربیٹھ جاتے ہیں۔

ایسے ہی ایک تماشہ آج ہوا ۔ 14 اپریل 2017 کو مذہبی اور سیاسی غنڈوں نے ایک معصوم طالب علم کو مردان میں انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کردیا۔سینکڑوں ' مسلمانوں اور حرمت رسول پر جانیں قربا ن کرنے والوں نے' اسی رسول کے نام پر ایک بے گناہ کو قربان کردیا۔پھر حلف اُٹھایا کہ کوئی کبھی کسی کواسے قتل کرنے والے کا نام نہیں بتائے گا کیونکہ اگر وحشی قاتلوں کا نام بتا دیا گیا اور انہیں قرار واقعی سزا ہوگئی تو سمجھو رسول اللہ کے ساتھ غداری اور بغاوت ہو گی ۔اس مذہبی وحشیانہ پن کا محرک ایک سیاسی جماعت کا کونسلر تھا جو چیخ چیخ کر لوگوں کو اُکساتا رہا کے 'گستاخ رسول' کو مارد و اور اگر کسی نے ایف آئی آر درج کرنی ہے تو کرلے ۔' میرا نام عارف ہے اور میرے باپ کا نام طورخان ہے۔' اب ایسے 'دلیر مسلمان'پر کون ہاتھ ڈالے۔ جب ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے شور ڈالا تو مجبوراً مقدمہ درج کرکے تحقیات شروع کرنا پڑیں۔ جاں سوز واقعہ کے ایک ایک لمحہ کی وڈیو موجود تھی۔ گواہوں کے بیانات اور چھپے حقائق تیزی کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ایسے حالات میں فیصلہ چند ہفتوں میں ہوسکتا تھالیکن اُسے دس ماہ میں کیا گیا۔ اس دوران اس سفاک تخریب پسند کو بھاگنے کا پورا موقع دیا گیا جس نے جاہل لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ایک بے گناہ کو لاٹھیوں ، مکوں اور پھر گولیوں سے مروا دیا تھا۔جو کھلے عام اپنا نام اور ولدیت بتا کر حکومت کو چیلنج کررہا تھاکہ اگر ہمت ہے تو اس کے خلاف ایف آئی آردرج کرے۔ لیکن قانون جو اندھا تھا ، وہ بہرہ بھی ہوگیا اور پولیس اور عدالت کو نہ وڈیو میں موجود بے حس اور ظالم لوگ نظر آئے نہ اُن کا سرغنہ۔ فوری فیصلہ اس سیاسی پارٹی کی ساکھ کوخراب کرسکتا تھا جو جاہل، سفاک اور عیش پسند ملائوں کے ساتھ مل کر ایک نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے۔

سیاسی مفادات ہوں تو وزیر اعظم کو سولی پر چڑھا دو۔ شہنشاہ ِ کرپشن کو ملک کا صدر بنا دو۔ باغی آمر کو فوجی پروٹوکول کے ساتھ ملک سے رخصت کردو۔ کینیڈا سے ایک مداری اسلام کا لبادہ اوڑھ کرآئے ، کچھ دن لوگوں کے جذبات سے کھیلے ، بے وقوف عوام کو اسلام کے نام پر اکٹھا کرکے حکومت کے سامنےاپنی نیوسینس ویلیو بڑھائے اور مال بنا کر واپس بھاگ جائے۔ عوام ششدر اور شرمندہ واپس گھروں کو چلے جائیں لیکن اسے پوچھنے والی نہ کوئی حکومت ہے نہ کوئی عدالت کہ اے تخم ِشیطان کیوں ہر سال ملک کا اربوں روپے کا نقصان کرنے ،غریبوں کی روٹی روزی بند کرنے، عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے پاکستان آجا تا ہے؟

غریب آدمی کے پاس جینے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جاہل ، جنس زدہ اور عیش کوش مولویوں کے کہنے پر انکے ہر دشمن کو توہین رسالت کی سولی پر چڑھا دے اور اپنے لیے چند رو ز کی روٹی کا بند بست کرلے۔سو یہ بھوکے ننگے ستم زدہ عوام اب یہی کررہے ہیں ۔مشال بھی ان کی چند روز کی روٹی کا سبب بن گیا۔ نسلوں کی روٹی اکھٹی کرنے والے سیاست دان اور سیاسی ملاں کچھ دن کے لیے زیر زمین چلے گئے ۔آج سول سوسائٹی کے دل جلے ، دُکھی اور بے بس ارکان کی تسلی کے لیےسینکڑوں دردندہ صفت ملزموں میں سے ایک ملزم کو پھانسی سنا دی گئی۔ چند کو چار چار سال کی سزا اور کچھ کو عمر قید کردی گئی۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کا تقاضہ پورا ہوگیا۔ ہم کچھ دن انصاف کے اس بول بالا پر بہت خوش کن تبصرے کریں گے۔ پھر ایک دن پتہ چلے گا کہ سزائے موت پانے والے کی سزا میں رحم دل صدر نے کمی کردی ہے ۔ باقی کے ملزموں کی اکثریت نے جیل میں چند ہفتوں میں قران حفظ کرکے اپنی بقیہ سزا معاف کروالی ہے۔ یہ سب کچھ خاموشی سے ہوجائے گا ۔ اس دوران ہم کسی سیالوی ، کسی قادری، کسی رضوی ، کسی عفی اللہ عنہ کے اُکسانے پرپھر کسی مشال ، کسی تاثیر کسی آمنہ بی بی کے شکار پر نکل چکے ہوں گے۔ اور میرے جیسے بزدل قلمکار، دانشور، شاعر اور نام نہاد انسان دوست ایک آہ بھر کر کہیں گے ، 'کاش پاکستان اسلام کے نام پر نہ بنا ہوتا!'

Prof. Mansoor A. Nasir
About the Author: Prof. Mansoor A. Nasir Read More Articles by Prof. Mansoor A. Nasir: 8 Articles with 6750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.