جنریشن گیپ

اول تو یہ کہ بچے ہوتے خاصے گھنے ہوتے ہیں۔ انکو پتہ ہوتا ہے اماں ابا کو کیا بتانا ہے کیا نہیں بتانا ۔ سو کبھی بھی انتہا کی ایمانداری سے آُکو ساری بات نہیں بتائیں گے۔
سو ایک چوبیس گھنٹے میں ایسا آدھا گھنٹہ ضرور رکھیں جس میں آپ اور آپکے بچے بیٹھ کر باتیں کریں۔ چھوٹی چھوٹی اور بے شک بونگی بونگی۔
مگر کریں ضرور۔ تاکہ آُپکے بچے کے پاس آپکی سپورٹ ضرور ہو۔ جزباتی سپورٹ۔ ورنہ وہ فوری یہ سپورٹ لینے انٹرنیٹ سے طریقے ڈھونڈھ لے گا اورپھر آپ نے سر پکڑ لینا ہے۔

"آپ کو میری بات سمجھ نہیں آتی" "میری کوئی سنتا نہیں" " مجھے کوئی سمجھتا ہی نہیں" "یا اللہ میں کہاں جاؤں " " یا اللہ یہ زندگی ہے کہ جہنم"
اس سے ملتے جلتے جملے آج ہمیں عام سننے کو ملتے ہیں۔ یہ جملے ہمیں پریشان بھی کرتے ہیں ۔ دکھی بھی کرتے ہیں۔
میں بات کر رہی ہوں "جنریشن گیپ" کی۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہمیں آج اتنے مسائل جانوروں سے نہیں جتنے اپنے جیسے انسانوں اور ٹیکنالوجی سے لاحق ہو گئے ہیں۔ ہم ان مسائل کو نمٹنے میں سن بہ دن ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ تک کہوں گی کہ ہمیں ابھی مسئلہ سمجھ آنا نہیں شروع ہوتا کہ ایک نیا مسئلہ سر اٹھا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔
ایک چیز تو کنفم ہے کہ آج بہت ذیادہ ترقی تیز رفتاری سے ہونے کی وجہ سے جنریشن گیپ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہم چھوٹے سے بچوں کو جتنا معصوم سمجھتے ہیں۔ اتنے تو وہ ہر گز ہرگز نہیں ہوتے۔ ہاں آج کے بڑے مجھے بچوں سے ذیادہ معصوم نظر آتے ہیں۔
یقین کریں ماں باپ آج کی اولاد کے ہاتھوں اتنی تنگ اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے ہے جسکو میں "کمیونکیشن گیپ" کہوں گی۔ جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں باپ کو یہ لگتا ہے کہ جب بچے کو بولنا سکھا دیا اب اسکے ساتھ بولنا ہر گز ضروری نہیں۔ یہ خود سے بیٹھا بولتا رہے جو مرضی جس مرضی کو کہتا رہے۔ بس اب ہمارا کام ختم۔
اصل میں کام شروع ہی تب ہوتا ہے۔ آپ چھوٹے چھوٹے خیالات کے ساتھ بچے سے بات سے بات نکال کر تبادلہ خیال کرتے رہیں۔ ہم یہ تبادلہ خیال کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ بہ ادھر ادھر خیالات کو بتاتا سنتا پھرتا ہے۔ پھر جب تک وہ ماں باپ کے کاندھوں تک پہنچ کر خیالات شتر بے مہار کی طرح ظاہر کرنے لگتا ہے ۔ تب ماں باپ کسی اور اور انکی ہی اولاد کسی اور سیارے کی مخلوق نظر آنے لگتے ہیں۔
غلطی اس میں ایک ننھی سی ہمارے ہاں قریب قریب سب ہی کرتے ہیں۔ ایک عمل کی غلطی اور ایک توقع کی غلطی۔
وہ یوں کہ پہلے تو وہ بات چیت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں سے کہ جاو اس سے بولو اس سے کہو مجھے تنگ نہ کرو۔پھرجب بچے کسی اور سے جا کر بات کرنا شروع کر دہتے ہیں بلکہ ماں باپ اور گھر والوں کو چھوڑ کر ہر ایک سے بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر ماں باپ کو لگنے لگتا ہے کہ یہ نافرمان ہو گئے ہیں۔
اسی طرح اگر دیکھا جائے تو توقع کی غلطی یہ کرتے ہیں کہ سوچتے ہیں کہ جو بھی ہو گا زندگی میں ابنارمل کسی بھی حوالے سے بچے ہمیں ضرور بتائیں گے۔
اول تو آپ انکی بات کو اہمیت دینے کی ضرورت نہ سمجھیں۔ جب تک وہ خود کچھ بتانا چاہیں آپ غائب ہونا ضروری سمجھیں۔ بچوں کے علاوہ زندگی کا ہر کام آپکو لگے کہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ بچوں کے خیالات کو آُپ فالتو کے خیالات سمجھیں۔ بچوں کا آس پاس ہونا آپ کو کوفت میں مبتلا کردے۔
پھر جب عمر رفتہ کا وہ دور آءے جب آپکا دل چاہے کہ جی بچے اب بچہ جو کہ ہو سکتا ہے خود بھی ایک عدد بچے کا ابا بن گیا ہو اب جی آپ سے بے تحاشا باتیں کرنے لگے تو یقین کریں آپکی توقع پوری نہیں ہونے والی۔
اول تو یہ کہ بچے ہوتے خاصے گھنے ہوتے ہیں۔ انکو پتہ ہوتا ہے اماں ابا کو کیا بتانا ہے کیا نہیں بتانا ۔ سو کبھی بھی انتہا کی ایمانداری سے آُکو ساری بات نہیں بتائیں گے۔
سو ایک چوبیس گھنٹے میں ایسا آدھا گھنٹہ ضرور رکھیں جس میں آپ اور آپکے بچے بیٹھ کر باتیں کریں۔ چھوٹی چھوٹی اور بے شک بونگی بونگی۔
مگر کریں ضرور۔ تاکہ آُپکے بچے کے پاس آپکی سپورٹ ضرور ہو۔ جزباتی سپورٹ۔ ورنہ وہ فوری یہ سپورٹ لینے انٹرنیٹ سے طریقے ڈھونڈھ لے گا اورپھر آپ نے سر پکڑ لینا ہے۔

sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 271283 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More