خیبرپختونخواکی پولیس

خیبرپختونخواکی پولیس کے بارے میں حکمران جماعت کی جانب سے دعوے کئے گئے کہ یہ پولیس مثالی بن چکی ہے ، یہ غیرسیاسی پولیس بنادی گئی ہے اوراس محکمے میں اصلاحات کانیاریکارڈقائم کیاگیاہے ان باتوں کاڈھنڈورااس شدت سے پیٹاگیاکہ پورے پاکستان میں بہت سے لوگ اسے سچ سمجھنے لگ گئے حکمران جماعت کے سربراہ نے ملک بھرمیں جلسوں کے دوران وزیراعلیٰ اورپولیس کی تعریفوں میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے مگرزمینی حقیقت کچھ اورہے کسی صوبے یاریاست کی پولیس کوآپ اس وقت تعریف کامستحق پاتے ہیں جب اس سے عوام کوریلیف مہیاہوپاکستان جیسے ملک میں جہاں انگریزنے اپنی نوآبادیوں کودباکررکھنے کیلئے ظالمانہ پولیس نظام رائج کیاآج دوسو سترسال گزرجانے کے باوجودوہی نوآبادیاتی نظام قائم ہے پولیس اسی طرح خودکوآقااورعوام کوغلام سمجھتی ہے ایسے میں ایک صوبے کی حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کہ پولیس کوسیاسی اثرورسوخ سے آزادکردیاگیاہے بڑاخوش کن ہے مگرواقعی ایساہواہے یامحض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے ؟ جس قسم کے بہیمانہ واقعات حالیہ عرصے میں سامنے آئے اس سے تویہی ظاہرہورہاہے کہ یہ دعوے محض سراب ہیں گزشتہ سال ڈیڑھ سال کااگرجائزہ لیاجائے تو اس دوران صوبے میں کئی اندوہناک واقعات رونماہوئے مردان سے ایک ایم این اے اورایس ایچ او کے درمیان ملزم چھڑانے پرتنازعہ ہواجس کی پاداش میں ایس ایچ او کوضلع بدرہوناپڑامذکورہ پولیس افسرکے بارے میں مشہورتھاکہ وہ جس پولیس سٹیشن میں تعینات ہوتے ہیں وہاں سے منشیات فروش، جواری اوردیگر سماج دشمن عناصرکوچ کرجاتے ہیں وہ ایک ایمانداراورفرض شناس پولیس افسرتھے مگرسیاسی مداخلت کی وجہ سے زیرعتاب رہے، صوابی میں سپیکراسدقیصرکے بھائی نے صوابی یونیورسٹی کی خاتون وائس چانسلرکے ساتھ بدتمیزی کی یہاں بھی پولیس نے اپنافرض منصبی درست طریقے سے ادانہیں کیا، ڈپٹی سپیکرکے بھائی پرایک خاتون نے جنسی ہراسمنٹ کاالزام لگایاشکایت کنندگان کویہاں بھی پولیس سے شکایات رہیں ،مشال قتل کیس میں بھی پولیس بااثراورحکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے مرکزی ملزم کوتاحال گرفتارنہ کرسکی ،مردان میں چارسالہ بچی اسماء کے ساتھ جنسی زیادتی اور بہیمانہ قتل کے سلسلے میں بھی پولیس کاکوئی مثالی کردارسامنے نہیں آیا،ڈیرہ اسماعیل خان میں شریفاں بی بی کوبرہنہ کرکے گلی کوچوں میں رسواکیاگیاشریفاں بی بی نے پولیس کے عدم تعاون اور ایف آئی آردرج کرانے میں ٹال مٹول جیسے سنجیدہ توجہ کے متقاضی حقائق کی نشاندہی کی مگرمثالی پولیس کے قصے کہانیاں سنانے والوں نے اس بے گناہ خاتون کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کیا،اسی طرح گزشتہ دنوں کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ کوسرعام قتل کیاگیایہاں بھی قتل ہونے والی طالبہ کے گھروالوں نے پولیس پرجانبداری اورملزم کوفرارکرانے میں سہولت فراہم کرنے کاالزام لگایامگروزیراعلیٰ صاحب نے ایک انوکھااستدلال پیش کیاکہ اس طرح کی واردات کی روک تھام امریکہ میں بھی ممکن نہیں کندھے اچکاکر چھوٹے موٹے واقعات قراردیناوزیراعلیٰ صاحب جیسے ’’بادشاہ آدمی‘‘ کاہی خاصہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیاخیبرپختونخواکوانکی نظروں سے دیکھے وہ جوکہتے ہیں اسے ہی سچ تسلیم کیاجائے اوروہ جودیکھتے ہیں ساری دنیابھی وہی دیکھے جبکہ یہ سب کچھ آج کی آزاداورگلوبل ویلیج دنیامیں ممکن نہیں آج حقیقت پلک جھپکنے سے پہلے ہی طشت ازبام ہوجاتی ہے وزیراعلیٰ صاحب نے امریکہ کی مثال پیش کی ہے توہم یہ عرض کرسکتے ہیں کہ امریکہ کی شہریوں کوحکومت کی جانب سے دیگربہت سی سہولیات مہیاکی جارہی ہیں پہلے اپنے شہریوں کوامریکہ جیسی سہولیات مہیاکیجئے پرامن معاشرہ دیجئے مجرم کوسرعت سے سزادیجئے اس سزاپرعملدرآمدیقینی بنائیے اسکے بعدہی امریکہ کی مثالیں دیتے رہئے جہاں تک پولیس نظام میں اصلاحات کاتعلق ہے تویہ کتابوں میں بندپڑی ہیں ان پرعملدرآمدنہیں ہواقوانین توپہلے سے ہی اس ملک موجودہیں مگراس ملک کے باسیوں کاالمیہ ہی یہی ہے کہ ان پرعملدرآمدنہیں ہوتاپولیس میں حکومتی اصلاحات کوتب سراہاجاسکتاہے اگرشریفاں بی بی کے ساتھ ہونے والی زیادتی اورایف آئی آر کے عدم اندراج کے ذمے دارپولیس اہلکاروں کوکڑی سزادی جاتی ایساکچھ نہیں ہوابلکہ شریفاں بی بی اوراس کاخاندان آج بھی کسمپرسی اورعدم شنوائی کی حالت میں زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں مشال قتل کیس کامرکزی ملزم پولیس کی نظروں سے اوجھل ہے چارسالہ بچی اسماء کاقاتل قانونی گرفت سے آزادہے اورآج عاصمہ رانی کاقاتل پولیس کی سستی سے فرارہونے میں کامیاب ہواہے وزیراعلیٰ صاحب کافرماناہے کہ پولیس تفتیش کررہی ہے مسئلہ ہی اسی تفتیش کاہے اس حکومت سے پہلے بھی پولیس اسی طرح روایتی تفتیش کرتی تھی اسی طرح بااثر ملزم فراریامفرورہونے میں کامیابی حاصل کرتے تھے توپھر آج تبدیل کیاہوا؟ حکومتی اصلاحات کاعوام کوکیافیض ملا؟محض گزشتہ ایک سال کے عرصے میں چارایسے اندوہناک واقعات سامنے آئے جس میں پولیس کاکردارناصرف کسی طورقابل ستائش نہیں بلکہ قابل مذمت ہے کیونکہ پولیس نے اس جدیددورمیں بھی انگریزکے زمانے کی یادتازہ کرتے ہوئے بااثرملزمان کوچھتری فراہم کی یااسکی غفلت اورلاپرواہی سے حکومتی پارٹی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ملزم فرارہونے میں کامیاب ہوئے ہاں پولیس کی قربانیوں سے انکارممکن نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخواپولیس کے 1500اہلکاراورافسرجام شہادت نوش کرچکے ہیں ان میں سے زیادہ ترتوٹارگٹ کرکے مارے گئے جبکہ کچھ اہلکاروں نے خودکش بمبارکامقابلہ کرکے شہادت حاصل کی صوبے میں امن اس وقت تک نہیں آیاجب تک ضرب غضب شروع نہیں کیاگیا پولیس چونکہ اسی معاشرے سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا بہادر ہے بہادرتواس صوبے کے بچے بھی ہیں بنوں کے اعتزازکی قربانی کسی پولیس اصلاحات کانتیجہ نہیں تھی بلکہ دشمن کوللکارنااسے مارنایامرجانااس مٹی اوریہاں کے خون میں شامل ہے پولیس اصلاحات اورمثالی پولیس کے دعوے کوہم تب درست سمجھ سکتے ہیں جب کسی مظلوم کی دادرسی ہوتھانے میں عام شہری کوعزت ملے اورکسی پولیس اہلکارکویہ جرات نہ ہوکہ وہ تھانے میں آئے کسی فریادی کوانصاف تک رسائی میں رکاوٹ بنے ڈپٹی سپیکرکے بھائی، مشال، شریفاں بی بی،اسماء اورعاصمہ رانی کے کیسزمیں پولیس کایہ کردارکہیں نظرنہیں آرہالوگ مطمئن ہیں کاحکومتی دعویٰ اس بات کامظہرہے کہ قتل کرنے کے بعداطمینان سے بیرون ملک جانے والے لوگ مطمئن نہیں ہونگے توکون ہوگا؟عوام اگرمطمئن ہوتے توعاصمہ رانی کابوڑھاباپ کیمروں کے سامنے دھاڑیں مارکرنہ روتا پولیس کوسیاست سے پاک کرنے کادعویٰ اس وقت ہواہوجاتاہے جب کوئی تھانے دارکسی منشیات فروش کوگرفتارکرتاہے مگروزیر،مشیر،ڈسٹرکٹ ،تحصیل یاویلیج کونسل ناظم کے ٹیلیفون کال پراسے بادل نخواستہ رہاکرناپڑتاہے مذکورہ زمینی حقائق کی روشنی میں خیبرپختونخواکی پولیس پورے پاکستان کی طرح روایتی پولیس ہی ہے خداکرے کہ یہ انٹرپول اورسکاٹ لینڈیارڈبن جائے مگریہ خواب موبائل کے چند ایپس استعمال میں لانے سے پورانہیں ہوگابلکہ تربیت کوجدیدخطوط پراستوارکرناہوگا پولیس کوعوام کاآقانہیں خادم بناناہوگااورکئے گئے اصلاحات کوروبہء عمل لاناہوگا۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.