سرکار اور سروکار

قصور کی بے قصور اوربے بس بیٹی زینب نے خاک کی چادرتان لی ہے جبکہ ہم زندہ لوگ سوگ کاکفن پہن کرخدانخواستہ مزید حادثات اورسانحات کے منتظر ہیں۔ ارباب اقتدار اپنے بچوں کی حفاظت ریاستی وسائل اورسرکاری اہلکاروں کی مدد سے کرتے ہیں ،سرکارکوعام آدمی اوراس کے بچوں سے کوئی سروکار نہیں ۔ہمارا شمار لکیر پیٹنے والی اقوام میں ہوتا ہے،ہم مٹھی بھردرندوں کی مرمت کرنے کی بجائے کمزوروں کی طرح مذمت اور ماتم کرتے ہیں،یادرکھیں حضرت انسا ن کاماتم اس کے کسی بھی زخم کامرہم نہیں بن سکتا۔کسی مجرم کی پشت پرکھڑے ہونیوالے محرم اس سے بڑے مجرم ہوتے ہیں ۔قانون کی حکمرانی اورانصاف کی فراوانی کاراستہ سخت سزاؤں سے ہوکرجاتا ہے۔سترماؤں سے زیادہ محبت کرنیوالے بڑے رحمن اورسچے رحیم سے بھی ڈرنے کاحکم ہے کیونکہ ڈردربدر ہونے اورگناہوں کی تاریک راہوں پرجانے سے روکتا ہے۔کسی بھی مہذب معاشرے میں قانون کاڈر قائم کئے بغیر مجرمانہ سرگرمیوں کاباب بندنہیں ہوگا ۔منشیات کی تجارت جبکہ اغواء اورآبروریزی کرنیوالے سماج دشمن عناصر کاایک مخصوص ٹائم فریم کے اندر اندر ٹرائل کرکے انہیں تختہ دارپرلٹکایاجائے۔قانون کی کمزوریوں اورتفتیشی آفیسرز کی کوتاہیوں نے ہمارے معاشرے کے مجرم کو نڈر اورطاقتور بنادیا ہے جبکہ عام لوگ ہرپل ڈرڈر اورمر مرکے جی رہے ہیں۔ہماراقانون کمزوروں کوکچلتا جبکہ طاقتور طبقات کی دہلیز پرسجدے کرتا ہے ۔ بچوں کوجنسی تشددسے بچانے کیلئے مناسب اورمحتاط اندازمیں منظم مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔سخت سزاکاڈرمجرم کو ختم کرنے کیلئے نہیں بلکہ انسان کوجرم سے روکنے کیلئے ہوتا ہے ،آبروریزی اورقتل سمیت کچھ گناہوں کی تلافی ہرگز نہیں ہوتی۔ ہم اورہمارے بڑے محفوظ ہیں اورنہ ہمارے بچے ۔بچوں کوپاکستان کامستقبل قراردیاجاتا ہے ، جوریاست اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرسکتی اس کامستقبل روشن اورمحفوظ نہیں ہوسکتا ۔

قرآن مجید فرقان حمید کی طالبہ زینب انصاری اب کبھی بے پردہ نہیں ہوگی مگراس معصوم کی اندوہناک موت نے ہمارے معاشرے اورمحافظوں کو برہنہ کردیاہے ،سانحہ قصورکے کئی روزبعدبھی قصوروارکواشتہاروں اوراشاروں کی مددسے تلاش کیا جارہا ہے۔ حکومت کی رفتاراورگفتار سے لگتا ہے قاتل کسی چوک میں بیٹھے بیٹھے خود گرفتاری پیش کردے گا۔پولیس کے فرسودہ طریقہ'' تفتیش'' پر''تشویش ''ہے،قاتل کی''روپوشی'' اورحکمرانوں کی''خاموشی '' زینب انصاری کے قتل سے بڑاسانحہ ہے۔حکمران جماعت کے سواسبھی طبقات سانحہ قصور کیخلاف سراپااحتجاج ہیں۔سکیورٹی'' اداروں ''کے'' ارادوں ''پرشک نہیں مگرکرپشن میں لتھڑی جمہوریت کی نحوست نے انہیں کسی حدتک ناکارہ کردیا ہے۔کچھ دعویداروں کے مطابق قاتل قابو آ گیاہے اورعنقریب وہ قصہ ماضی بن جائے گالیکن مجھے نہیں لگتا کیونکہ اگرقاتل قانون کی گرفت میں ہوتاتوحکمران مسلسل ہزیمت برداشت نہ کرتے۔افسوس پنجاب کے حکمران اپناکام کرنے کی بجائے خیبرپختواکی بدنصیب بیٹی کے ساتھ ہونیوالے ظلم کی دہائی دے رہے ہیں۔ہمارے ہاں حکمرانوں پرتنقیدہوتی ہے تووہ تسلی بخش جواب دینے یااپنی کارکردگی بہترکرنے کی بجائے دوسرے صوبوں کی نااہلیاورناکامی پر نکتہ چینی شروع کردیتے ہیں۔تعجب ہے وفاق پرحکمرانی کاخواب دیکھنے والے سیاستدان پاکستانیت کی رگوں میں صوبائیت کازہرانڈیل رہے ہیں۔شہبازشریف کی وزارت عظمیٰ کیلئے نامزدگی ''ساماں سوبرس کاپل کی خبر نہیں'' کے مصداق ہے،حکمران خاندان نے گھر بیٹھے بیٹھے آپس میں پاکستان کابٹوارہ کرلیا ،اپنے خاندان کے اندرنفاق چھپانے کیلئے ایک فریق کوپنجاب دوسرے کو وفاق دے دیاگیا،جمہوریت زندہ باد،موروثی سیاست پائندہ باد ۔جس نے پچھلے دس برس سے پنجاب کاتختہ مشق بنایا ہوا ہے ،اب پوراپاکستان اس کے سپردکرنے کی باتوں پرسچے اورسنجیدہ پاکستانیوں کااظہارتشویش فطری ہے ۔پنجاب ہوخیبرپختونخوا ،سندھ یابلوچستان جہاں بھی بیٹیوں اوربہنوں کودرندگی کاسامناکرنا پڑتا ہے وہ پاکستان کی بیٹیاں ہیں۔پاکستانیت پرمنافرت اورصوبائیت کی کاری ضرب لگانیوالے درحقیقت اسلامیت سے نابلد ہیں۔پنجاب حکومت کایہ نعرہ ''قائدؒ کاخواب تعبیر بناپنجاب'' انتہائی نامناسب ہے کیونکہ قائدـؒ صوبائیت اورمنافرت کیخلاف تھے انہوں نے پاکستان کیلئے جوخواب دیکھے انہیں شرمندہ تعبیرکرنے کی ضرورت ہے۔ہماری ریاست موروثی سیاست اورصوبائیت کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔جوسیاسی وکاروباری خاندان موروثی سیاست کی علامت ہیں وہ قائد ؒ کے کسی خواب کوتعبیر نہیں بخش سکتے ۔

میں اپنے کالم کے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں ،جوشرپسندعناصرمعاشرے کیلئے ایک ''گالی ''بن کررہ جاتے ہیں''گولی ''ان کامقدربن جاتی ہے۔قوم کی بیٹیوں کورسواکرنیوالے کسی رحم کے مستحق نہیں ۔بے حس درندوں کی گرفت میں بیچاری زینب بے بس تھی مگر پنجاب حکومت اوراس کی کٹھ پتلی پولیس زینب انصاری سے بھی زیادہ بے بس ہے۔جس روز پنجاب پولیس خادم پنجاب کی قید سے آزاد ہوگئی اس روز سماج دشمن عناصر قید جبکہ ہمارے بچے محفوظ ہوجائیں گے ۔ خادم پنجاب کازورکسی قاتل اورڈاکو سے زیادہ ڈی پی اوزاورایس ایچ اوزپرچلتا ہے،قصور میں زینب انصاری کے قصووارکوسزادینے کی بجائے قصور کے بے قصور ڈی پی او چودھری ذوالفقار کوتبدیل کردیا گیا،دوبے قصور شہریوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کوتوگرفتارکرلیا مگرانہیں فائرکرنے کاحکم صادرکرنیوالے کوحراست میں کیوں نہیں لیا گیا ،کیا امن وامان برقرارکھنے کیلئے منتخب نمائندوں اوروزیروں مشیروں کاکوئی کردار نہیں جو آر پی اواورڈی پی او سمیت ایس ایچ اوسے ہزارگنازیادہ ریاست سے مراعات وصول کرتے ہیں۔خادم پنجاب شہبازشریف آئے روزکسی نہ کسی سرکاری ہسپتال کادورہ کرتے اوروہاں صفائی ستھرائی کی ابترصورتحال دیکھتے ہوئے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کومعطل کردیتے ہیں مگر موصوف نے گلیوں میں گندگی کے ڈھیرہونے پرآج تک حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی،لارڈمیئر یابلدیاتی نمائندوں میں سے کسی کومعطل نہیں کیا ،نااہل حکمرانوں کے سیاسی گناہوں کاملبہ سب سے زیادہ پولیس فورس پرگرتا ہے جبکہ منتخب نمائندے تومقدس گائے کی طرح ہیں۔جس طرح صوبائی وزیرتعلیم رانامشہوداحمدخاں کی ایک ویڈیو منظرعام پرآئی تھی اگراس طرح کی ویڈیوکسی ڈی پی او،ایس پی،ڈی ایس پی،ایس ایچ او یاپٹواری کی نشرہوئی ہوتی تو وہ اپنے منصب پرہرگزبرقرارنہ رہتا ۔قصور کے سابق ڈی پی او چودھری ذوالفقار سے منسوب دس ہزار روپے کی بات یقینا ڈس انفارمیشن ہے،زینب کے باریش اوردرویش والد نے بھی دس ہزار والی بات کی تردیدکردی تھی مگراس کے باوجود اس بات کاپروپیگنڈا کیاجارہاہے۔کسی نادان شہری نے ایک مشکوک شخص اورقصور کے سابق ڈی پی او چودھری ذولفقارکی تصویر جوڑ کرسوشل میڈیا پر وائرل کر دی جوغیرذمہ دار ی کی بدترین مثال ہے۔سوشل میڈیا نے ہرکسی کومبصر،مصنف اورمنصف بنادیاہے،سوشل میڈیا پرہرکسی کی اپنی عدالت ہے جہاں دوسروں کی تقدیراورتوقیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔قصورکے سابق ڈی پی اوچودھری ذوالفقارنے زینب کی نعش تلاش کرنیوالے اہلکار کودس ہزارانعام دینے کی بات کی تھی مگر اسے دوسرارنگ دے دیا گیا،راقم کے پاس زینب کے والد کی اس موضوع پرگفتگو کی ویڈیوموجود ہے۔زینب کے ساتھ جوہواوہ قصورسمیت پنجاب کاواحدسانحہ نہیں لیکن دعا ہے اس کے بعد کسی اورزینب کواس کی بے کسی اورارباب اقتدار کی بے حسی کاخمیازہ نہ بھگتناپڑے۔زینب خوش نصیب تھی اس کی شہادت رائیگاں نہیں گئی اوراس نے اپنی آنکھیں موندکرہمارے مردہ معاشرے کوجگادیا تاہم ابھی حکمرانوں کے بیدارہونے کاانتظار ہے ۔ درندے یادرندوں نے معصوم زینب انصاری کی ناموس چھینی اورپھر اس ننھی پری کی زندگی چھین کر اس مرجھائے ہوئے پھول کوگندگی کے ڈھیر پرآوارہ کتوں کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا ، زمین کاسینہ چاک ہوااورنہ آسمان ٹوٹ کے گرا ۔وزیراعلیٰ پنجاب مستعفی ہوئے نہ کسی وزیرکااستعفیٰ آیا،ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ڈی پی اوقصورکوقربان کردیا گیا ۔ شہبازشریف جس طرح سرکاری ہسپتال کے اندرصفائی نہ ہو نے پروہاں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کومعطل کردیتے ہیں اس طرح ہمار ی گلیوں میں گندگی کے ڈھیر دیکھتے ہوئے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اوربلدیاتی نمائندوں کی بازپرس بھی کرلیا کریں ۔ جس حلقہ میں ووٹرزیاان کے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہاں کے منتخب نمائندوں کوکٹہرے میں کیوں کھڑانہیں کیا جاتا۔

مقتول زینب کے بدنصیب ماں باپ اورعزیز واقار ب انتہائی مضطرب اور انصاف کے منتظر ہیں۔ غمزدہ خاندان کے پاس اظہارتعزیت کیلئے جانیوالے ان کے زخم کریدنے اور انہیں اذیت دینے کے سواکچھ نہیں کر رہے،مقتول زینب انصاری کے ماں باپ سے اظہارتعزیت کرتے ہوئے ان کے ساتھ تصاویربنوانااورسوشل میڈیا پر لگانا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ۔بچوں کے بچاؤکیلئے درست اور دوررس اقدامات کی ضرورت ہے۔نکاح آسان کیا اورجہیز پرپابندی لگائی جائے ۔گلی محلے میں ویران اوربے آبادگھر آبادیامسمارکئے جائیں۔قبرستانوں کی دیواریں تعمیر اوردیواروں پرخاردارتار یں لگائی جائیں ۔شراب سمیت ہرقسم کی منشیات کی خریدوفروخت کیخلاف منظم اورموثرکریک ڈاؤن کیاجائے۔انٹرنیٹ اورسمارٹ فونز کی مددسے فحش موادتک رسائی روکناہوگی ۔گلی گلی موبائل فون شاپ جوفحش موادتک رسائی کے سہولت کاربنے ہوئے ہیں ا نہیں گرفتارکیاجائے ۔ریاست بیروزگاری بحران کاسدباب کرے۔ یقینا بے حیائی میں رسوائی ہے ،اس سلسلہ میں علماء حضرات اورمساجد کے خطیب بھی کلیدی کرداراداکرسکتے ہیں ۔شہری اپنی مددآپ کے تحت اپنے اپنے محلے میں سی سی ٹی اوکیمرے نصب کریں۔پولیس کے سی سی ٹی وی کیمروں کی پوزیشن تبدیل کی جائے جس سے چہروں کی شناخت آسان ہو۔ابھی تک ہزاروں ایسے موبائل نمبرز شہریوں کے زیراستعمال ہیں جن کاایڈریس درست اورمکمل نہیں ہے۔تعلیمی اداروں کے مالکان طلبہ وطالبات سے بھاری واجبات وصول کرتے ہیں مگر ان کی طرف سے بچوں کی حفاظت کیلئے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں،نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کوپابندکیاجائے وہ اپنے اداروں کے باہراورملحقہ گلیوں میں سی سی ٹی اوکیمرے نصب جبکہ صبح اورچھٹی کے اوقات میں ٹرینڈمسلح سکیورٹی گارڈزبھی مامورکریں۔شہری ایک دوسرے کے بچوں اورمشکوک افراد کی آمدورفت کاخیال رکھیں ۔ ''لوکوجاگدے رہنا حکمراناں تے نہ رہنا''۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.