مقصد

صبح کو شام کا , دن کو رات کا ، سورج کو چند کا ، زندگی کو موت کا ، اور ازل کو ابد کا انتظار ہے یہ انتظار اپنے مقصد کے لیے پیدا ہوتا ہے صبح کو شام کا مقصود ہے دن کو رات اور سورج دن بھر چاند کو تلاش کرتا ہے اور جب اسے چاند مل جاے تو اسکا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور اسکا انتظار ختم ہو جاتا ہے پھر چاند رات بھر سورج کا انتظار کرتا ہے اور طلوع آفتاب کی کرن دیکھ .کر چاند کا انتظار ختم ہو جاتا ہے شائد ہر انتظار کرنے والا یہ نہیں جانتا کے اصل انتظار مقصد پہ پہنچنے کے بعد شروع ہوتا ہے غریب آدمی پورا دن مزدوری کرتا ہے اور شام کو چار پیسے لے کر گھر جاتا ہے اور اپنے بیوی بچوں کا انتظار ختم کرتا ہے دراصل میں وہ انتظار ختم نہیں بلکے ان کو دوبارہ انتظار کرنے کی امید دیتا ہے . ہم سب کامیاب ہونا چاھتے ہیں ہم کامیابی کو تلاش .کرتے ہیں اور کامیابی ہمیں تلاش کرتی ہے اور اسی تلاش میں کامیابی ہمرے پاس سے اور ہم کامیابی کے پاس سے گزر جاتے ہیں کیا ہماری خوہشات پر ہمارا قابو ہے ، کیا ہمارا نفس ہمارے قابو میں ہے کیا ہمارا نظریہ ہمارے قابو میں ہے نہیں ہم سب کچھ سستے داموں میں بیچ چکے ہیں. اگر ہماری کامیابی کسی کی رسوائی ہو تو ہم خود کو بہترین خریدار تصور کریں گے ...انسان شائد یہ بات نہیں جانتا کے ہر ایک سنگ میل پر کامیابی اگلا سٹیشن لکھا ہوا ہے وہ تو بس سفر کرتا جا رہا ہے اور اسی سفر میں اسکا سفر حیات اپنی منزل پا لے گا پر اسکی خواہشات اپنی کامیابی کی منزل کبھی نہیں پائیں گی کیوں کے اس نے اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے اپنی خواہش کے معیار کو نہیں ماپا اس نے کامیابی سے اسکی معیاد نہیں پوچھی اس نے سفر سے اسکی مسافت نہیں پوچھی کوئی سفر کرتا ہے اپنی خواہش کی حوس کو مٹانے کے لیے ، کوئی پرواز کرتا ہے مردار کی تلاش کے لیے اور کوئی دن بھر رینگتا ہے خاک راہ کے لیے کوئی اپنے مقدر سے گفتگو کرنے کے لیے کیوں نہیں اسے تلاش کرتا ہے کوئی سکوں تلاش کرنے کے لیے کیوں نہیں سفر کرتا کیونکے ہر کوئی کامیابی چاہتا ہے جبکے کامیابی خود بھی اپنی تعریف نہیں جانتی . طالب علم اپنے سفر میں نمبروں کا انتظار کرتا ہے اور جب نتیجہ آ جاے پھر نۓ سفر اور نۓ انتظار کا آغاز کر دیتا ہے . کامیابی نے انسانوں میں جھگڑا اور فتنہ پیدا کر دیا ہے کسی کی کامیابی دوسرے کا غم بن جاتی ہے اور وقت کا پجاری اپنی خوشیوں میں مگن رہتا ہے . میں لوگوں کو تلاش کرتا ہوں اور لوگ مجھے اور ہوا کچھ یوں کہ نہ مجھے آج تک لوگ ملے اور نہ میں لوگوں کو کیونکے شائد اس زندگی میں لفظ انفرادیت اپنی حیثیت اور اپنے مقام کی تلاش میں محبت اور اخلاقیات کو ناراض کر بیٹھا ہے آج کی کامیابی درد جان بن چکی ہے جو کامیابی کسی دوسرے سے اسکی خوشی چھین لے وہی سب سے بڑی ناکامی ہے کیونکے ناکامی خود بھی کامیابی ایک بہت بڑی دلیل ہے لوگ خاموش انسان کو افسردہ سمجھتے ہیں اور خاموش بیٹھا شخص ان کو دیکھ کر انھیں بیوقوف سمجھتا ہے یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھتا ہے پر کوئی کسی کے دل کو نہیں سمجھتا کیونکے وہ اپنے دل کو بھی نہیں سمجھتا . وقت کے تقاضے میں اور منافقت میں بہت فرق ہے کسی کی خوشی کے لیے اسے امید دلانا منافقت نہیں . دنیا میں موجود ہر چیز ایک طاقت ہے ہر کسی کے اپنے معیار اور معیاد میں فرق ہے ...مختصر یہ کہ جس دن چراغ نے اپنے اندر روشنی کردی اس دن کے بعد چراغ کبھی نہیں بھجے گا کیونکے اسے اپنے اندر سے ایک روشنی اور مل جاے گی جو اسکی اپنی ہے عنایات ہو گی-

ARSLAN AKHTAR
About the Author: ARSLAN AKHTAR Read More Articles by ARSLAN AKHTAR: 6 Articles with 4461 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.