نئی نویلی گاڑی کو اینٹ کیوں ماری؟ مالک نے کیا کیا؟

ایک آدمی اپنی نئی نویلی گاڑی ’جیگ وار‘ لے کر جا رہا تھا کہ ایک دم ایک اینٹ آکر زور سے اس کے دروازے سے ٹکرائی۔ اس آدمی کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ بالکل نئی گاڑی تھی اور کسی نے ایسی گھٹیا حرکت کی تھی۔ وہ آدمی طیش میں آگیا اور فوراً باہر نکل کر سامنے کھڑے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ اس نے لڑکے کو زور سے اپنی گاڑی پر دے مارا ۔ اس کو اتنا غصہ آیا ہوا تھا کہ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ ایک بارہ تیرہ سال کا بچہ ہے۔ اس نے غصے سے اس لڑکے کو ڈانٹا اور پوچھا کہ تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ یہ بالکل نئی گاڑی ہے، تمہیں نظر نہیں آتا۔ یہ کس قسم کی اخلاق سے گری ہوئی حرکت کی ہے تم نے؟

غصے میں وہ یہ نہیں دیکھ پاتا تھا کہ وہ بچہ رو رہا تھا۔ اس نے جب اس کے آنسو دیکھے تو اسے زمین پر اتار دیا اور پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا؟ بچہ بولا کہ انکل میں اتنی دیر سے ادھر گاڑیاں روکنے کے لیے اشارے کر رہا ہوں لیکن کوئی ایک گاڑی بھی نہیں رکی۔ مجھے بہت سخت مدد چاہیے تھی اور جب مجھے اور کچھ سمجھ نہیں آیا تو میں نے سوچا کہ اینٹ ماروں گا تو کوئی گاڑی رک جائے گی۔ابھی آپ کی گاڑی آگئی تھی، تو میں نے روکنے کے لیے اینٹ مار دی تھی۔ آدمی کو لگا کہ اس بچے کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ اس نے بولا کہ تم پاگل ہو کیا؟ آبھینس مجھے مار؟۔۔۔

لڑکا رونے لگ گیا اور بولا کہ میرا بھائی پندرہ منٹ پہلے اپنی وہیل چئیر سے نیچے گر گیا تھا اور وہ تب سے ادھر سڑک پر گرا پڑا ہے۔ اس کو چوٹیں بھی لگ گئی ہیں۔وہ مسلسل رو رہا ہے۔ وہ اتنا موٹا ہے کہ میں اکیلے اسے نہیں اٹھا سکتا۔ میں نے پوری جان لگائی ہے لیکن وہ ادھر ہی گرا پڑا ہے۔ وہ بہت چھوٹا ہے، میں پندرہ منٹ سے ادھر کھڑا اشارے کر رہا ہوں کہ کوئی آدمی آکر اسے میرے ساتھ مل کر اٹھا کر واپس وہیل چئیر پر ڈال دے لیکن سب گاڑیاں اتنی تیزی سے آکر چلی جاتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ تھوڑی سی مار کھا لوں گا لیکن اس کو کوئی اٹھا کر واپس بٹھا دے گا۔ وہ آدمی بہت حیران تھا۔ یہ بچہ خود بھی دس سے گیارہ سال کا تھا۔ اس کو شدید رحم آگیا اور یہ اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے جا کر دیکھا تو واقعی ایک پانچ سال کا بھاری بھرکم بچہ نیچے گرا پڑا تھا اور زور زور سے رو رہا تھا۔ اردگرد کوئی آدمی نہیں تھا۔ اس نے جا کر خود اس بچے کو اٹھا کر وہیل چئیر پر بٹھا دیا۔ پھر اپنا رومال نکال کر اس کی خراشیں صاف کیں۔ اس کو سڑک سے کھرچ لگی تھی۔ اس نے اس کے بڑے بھائی سے پوچھا کہ ہسپتال لے جاؤں؟

تو اس نے کہا کہ آپ کا بہت بہت شکریہ۔آپ نے اتنی مدد کر دی۔ ابھی میں اس کو گھر لے جاؤں گا۔ اس آدمی نے نہ کوئی غصہ کیا اور نہ اس بچے سے پیسے مانگے بلکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا چھوٹا بھائی کیونکہ بچپن سے معذور تھا اس لیے اتنا بھاری بھرکم تھا۔ وہیل چئیر والے لوگ ہمیشہ بھاری بھرکم ہی ہو جاتے ہیں۔ اور یہ خود اتنا کمزور سا تھا یہ واقعی اپنے بھائی کو اٹھا کر واپس نہیں بٹھا سکتا تھا۔ اس کو بچے کی بے وقوفی پر بھی ترس آیا کہ اس نے اتنی گاڑیاں روکی اور جو اس کو سمجھ آیا اس نے وہ کر کے اس کو روک ہی لیا۔ اس آدمی نے اپنی نئی گاڑی کا وہ ڈینٹ کبھی ٹھیک نہیں کروایا کیونکہ وہ اس کو جب بھی دیکھتا تھا اسے کے اندر ایک اچھائی کا جذبہ اجاگر ہوتا تھا۔ وہ بچہ تو اپنے بھائی کے پیار میں پاگل تھا ہی، اس آدمی میں بھی اچھائی کا پہلو کافی نمایاں تھا۔ زندگی بہت تیز رفتار ہو گئی ہے ۔ سب ترقی کر رہے ہیں۔ مگر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی ریس میں اتنا مگن مت ہو کہ تمہاری توجہ لینے کے لیے کسی کو تمہیں اینٹ مار کر روکنا پڑے۔

YOU MAY ALSO LIKE: