میرے ہمدم میرے ہم قدم

کیا مصیبت ہے یار !
روز روز یہی تماشہ ہوتا ہے جب بھی گھر آؤ کھانے کو کچھ ملتا ہی نہیں ہے۔ انجبین کا مزاج ویسے ہی اکثر گرم رہتا تھا مگر آج تو پارہ بہت ہائی تھا۔ کالج سے واپس لوٹتے ہی بیگ کو اس کی جگہ رکھنے کے بجائے جہاں جگہ ملی وہیں پھینک دیا اور مزے سے صوفہ پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔
انجبین دو بھایئوں کے بعد پیدا ہوئی تھی اور اس کے بعد اس سے چھوٹا ایک اور بھائی پیدا ہوا اور فیملی کا لاسٹ پیس اسکی چھوٹی بہن پیدا ہوئی۔
انجبین گھر بھر میں ہمیشہ سے ہی ایک ٹربلنگ چائلڈ رہی تھی۔ بچپن سے لے کر اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے بھی کبھی بھی انجبین نے کسی بات پر شکر نہیں کیا تھا۔۔۔ وہ اس شکر کے جزبے سے ہی عاری تھی۔ خودغرضی کی حد تک خود پسند اور ہر بات میں کچھ نہ کچھ خرابی نکال لینا انجبین کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
اب ایسی بات بھی نہیں تھی کہ وہ گھر میں کسی کے لاڈ پیار کی وجہ سے ایسی ہو گئی تھی۔ لیکن شاید بچپن میں مناسب توجہ نہ ملنے کی وجہ سے انجبین اپنے نام کے بلکل برعکس ایک شخصیت بن کر ابھری تھی۔ انجبین کے معنی ہیں ''شہد'' کے لیکن اس انجبین سے بہتر تو اسکنجبین ہے جسے گرم موسم میں پی کر انسان سکھ کا سانس تو لیتا ہے۔ ایسے بے ہنگم زندگی کے خدا کی پناہ, اس سے تو ہزار درجہ بہتر رہنے کا سلیقہ اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب انجبین کی چھوٹی بہن فاریہ کو آتے تھے۔ نائنتھ کلاس کی فاریہ بی اے کی انجبین سے ہر لحاظ سے بہتر تھی اور اس بہتری کی وجہ سے انجبین کے غصہ کا شکار بھی اکثر اور بیشتر فاریہ ہی ہوا کرتی تھی۔
انجبین کے گھر میں۔ والد خضر سرکاری ملازمت کے بعد اب اپنی ایک چھوٹی سی سٹیشنری کی دکان کرتے تھے, اس دکان کی ضرورت تو تھی نہیں مگر مصروفیت کی غرض سے یہ کاروبار بھی ساتھ میں چل رہا تھا۔ والدہ ایک پرایئویٹ اسکول میں ابھی تک پڑھاتی تھی, اماں اور ابا کی عمروں میں آٹھ دس برس کا فرق تو تھا ہی جس کی بنا پر ماں ابھی نوکری کی اہل تھیں جبکہ ابا تین سال سے نوکری کو خیرباد کہ کر گھر آچکے تھے۔ بڑے بھائی راشد اور ان کی بیوی رخسار, یہ دونوں دبئی میں رہتے تھے اور سال میں ایک بار گھر ضرور آیا کرتے تھے۔ راشد بھائی کی اکوئی اولاد نہیں تھی شادی کو سات سال ہو چکے۔ چھوٹے بھائی عابد کی شادی کی تاریخ تہ کر دی گئی تھی۔ اور وہ بھی خضر صاحب کی بڑی آپا کی سب سے چھوٹی بیٹی قرۃ العین کے ساتھ۔۔۔۔ راشد بھائی کی شادی بھی ان کی اپنی پسند کی تھی اب عابد بھائی کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا تھا۔ اس قربانی کے لیے وہ بھی دل و جان سے تیار تھے۔ والدین کو لگتا تھا بیٹا بے حد فرمابرداری کے ساتھ فیصلے کا احترام کر رہا ہے لیکن کون جانتا تھا کہ عابد بھائی کی تو من کی مراد پوری ہونے کو ہے۔ اجبین سے چھوٹا بھائی کاشف ایف ایس سی کر رہا تھا اور بے حد خاموش اور ملنسار لڑکا جس سے ماں باپ تو کیا بہن بھائی بھی کبھی کوئی شکایت نہیں رکھتے۔ یہ تھا گھر کا ماحول اور ایک تھی انجبین۔۔۔ فاریہ کا تو ذکر پہلے ہی ہو چکا۔
......................................................................

زیان جاگ جاؤ تمھارا بھی کوئی حال نہیں چھٹی کے روز تو کم سے کم ہمارے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کر لیا کرو۔ تم تو اتنی سی عمر میں بھی بڈھے بابے بن گئے ہو۔ چلو باہر نکلو آو جلدی سے۔ بہن بھائی کی یہ تکرار ابھی جاری تھی کہ ماں نے آواز دی شمائلہ جاؤ دودھ لے آو جا کر۔
زیان بہن کی نان سٹاپ کمنٹری کے باعث گھری نیند سے جاگ گیا تھا اور اپنے موبائل فون کی سکرین پر بے ترتیبی کے ساتھ ہاتھ مارنے لگا تا کہ وقت دیکھ سکے۔
زیان دو بہنوں کا اکلوتا بھائی اور باپ کے بعد اس گھر واحد سہارا۔ بڑی بہن نائلہ کی شادی ہو چکی تھی اور چھوٹی کی ہونے والی تھی۔ زیان پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی کمپنی میں اچھی سی پوسٹ پر ملازمت بھی کر رہا تھا۔ شمائلہ خود بھی ٹیچنگ کرتی تھی جس سے گھر کا خرچہ باآسانی چلتا رہتا تھا۔ ابا کی پنشن بھی کافی معقول تھی۔

زیان ابھی لیٹا ہوا تھا کہ پھر سے شمائلہ کی آواز سنائی دینے لگی, وہ سیڑھیوں سے واپس اوپر آرہی تھی اس کے قدموں کی آواز اور بولنے کی سپیڈ دونوں ایک جیسی ہی تھیں۔۔۔۔۔

زیان: شمو میں جاگ رہا ہوں پلیز اب مت آجانا جگانے کے لیے, میں آتا ہوں تیار ہو کر پلیز تم مت زحمت کرو باہر آتا ہوں میں۔۔۔۔
چھٹی کے دن بھی جگا دیتے ہیں مجھے, کوئی خیال ہی نہیں مجھ معصوم کا۔زیان منہ بنا کر اٹھا اور نہانے کے لیے چلا گیا۔
مڈل کلاس لوگوں گے گھر تو بڑے نہیں ہوتے لیکن ان کے دل بہت کشادہ ہوا کرتے ہیں یہی وجہ ہے یہ چھوٹا سا کنبہ اپنے چھوٹے سے گھر میں بہت خوش تھا۔ ماں کو بیٹی کی شادی کی جہاں جلدی تھی وہیں بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کے ارمان بھی دل میں مچلنے لگے تھے۔۔۔ ویسے تو زیان کی عمر ابھی کوئی اتنی زیادہ بھی نہیں تھی لیکن شوہر کی وفات اور اکلوتا بیٹا ماں کیسے نہ یہ خواب دیکھنے لگتی۔۔ زیان بھی ماں کی اس خواہش کے بارے میں جانتا تھا, ماں نے تو کہیں مرتبہ پوچھا بھی تھا کہ کوئی لڑکی ہے تو وہ بتا دے۔۔۔ مگر زیان کی زندگی میں لڑکی ہونا تو دور اس کے دل و دماغ میں بھی کسی لڑکی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ رشتوں کی ویسے تو کوئی کمی نہیں تھی لیکن خاندان والوں کا رویہ زیان دیکھ چکا تھا بابا کی وفات کے وقت اس کے بعد سے اس کا دل اچاٹ ہو گیا تھا اس سب سے۔۔۔ وہ منہ سے تو کچھ نہیں کہتا تھا لیکن اس کی آنکھیں اس کے دل کا حال بہت اچھے سے بیان کر دیا کرتی تھی۔ ہمیشہ جن اپنوں کو وہ اپنا سمجھتا آیا تھا وقت پڑنے پہ سب کے سب پرائے بن بیٹھے تھے۔
.......................................

مینجر کے کمرے سے باہر آتے ہوئے زیان کا چہرہ اتر چکا تھا, اس کو تو آج جلدی گھر واپس جانا تھا لیکن دبئی سے آنے والی فون کال کے بعد اس کا تمام پلان چوپٹ ہو چکا تھا۔ اسے ابھی جا کر ایک بہت امپورٹنٹ فائل دبئی آفس کے ایک امپلائر کے گھر سے لانی تھی اور آفس پہنچا کر پھر وہ گھر جا سکتا تھا۔۔۔ اپنے باس کو بھی انکار کرنا ممکن نہیں تھا زیان کے لیے, اس کام کے لیے قدرتی طور پر زیان ہی انتخاب ہو سکتا تھا۔ زیان بھی مجبورً مرتا کیا نہ کرتا جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ پرائیوٹ کمپنی والے بھی نا, ایسے سیکرٹ فائل رکھتے ہیں جیسے نیوکلیئر بم کا فارمولا ہے ان کے پاس۔ یہی بات سوچتے سوچتے زیان آفس سے باہر آگیا اور پارکنگ میں کھڑی اپنی شہزادی ایف ایکس کی جانب بڑھنے لگا۔ اس گاڑی کو خریدنے میں تمام رقم اپنی جیب سے ہی ادا کی تھی زیان نے۔۔۔ زیان نے گاڑی سٹارٹ ہی کی تھی کہ اسے محسوس ہوا کے کچھ گربڑ ہے, کچھ الٹا ہونے کو ہے, اس خیال کے ذہن میں آتے ہی زیان نے سر جھٹک دیا کہ یہ صرف اسکا وہم ہے اور کچھ نہیں۔ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس نے گھر کال ملا دی تا کہ بتا سکے کے آج بھی وہ حسب معمول یا اس سے بھی لیٹ گھر آئے گا۔۔۔۔ فون شمائلہ نے ہی اٹھایا اور اٹھاتے ہی بولی,
شمائلہ: رہنے دو بھائی کچھ مت بولنا میں سمجھ گئی کے مابدولت آج بھی دیر سے گھر آئیں گے۔ اور اس کے لیے کوئی بھی بھانہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ شمائلہ کی آواز میں شدید غم و غصہ تھا۔۔

زیان: ہی ہی ہی (کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے) میں کیا کروں میری بہن دفتر کوئی میرے ابا مرحوم کا تو ہے نہیں کہ جب چاہا کام چھوڑ کے آ جا یا کروں۔

شمائلہ: بس بس ابا کو بیچ میں مت لایا کرو, یہ ہم دونوں کی لڑائی ہے ان کی روح کو کیوں تکلیف دیتے ہو۔۔۔۔
زیان نے بھی ہنس کے فون کو بند کر دیا اور اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگا۔
گھر والوں کی شکایت بھی تو جائز ہے نا! میں کتنے روز سے گھر دیر سے جا رہا ہوں اور جاتے ہی سو جاتا ہوں, صبح اٹھ کر کام پر آجاتا ہوں۔ یا یونیورسٹی جانا اور کلاس لینا بس روبوٹ ہی بن کر رہ گیا ہوں۔۔۔ زیان خیالوں کی رو میں بہتا چلا جا رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ کب اس کی گاڑی کے آگے دو لڑکیاں آگئی اور بہت مشکل کے ساتھ اس نے گاڑی کا رخ بدلا اور گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا دی۔۔۔ اسی تیزی میں گاڑی ان لڑکیوں سے تھوڑا آگے نکل گئی, زیان نے باہر نکل کر ان کی مدد کے لیے اور یہ دیکھنے کو کے وہ بچ تو گئی ہیں یہ دیکھنے جلدی سے باہر نکل آیا لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے وہ دونوں آٹو میں بیٹھ چکی تھیں۔۔۔ آٹو کے سائڈ ویو مرر میں ایک لڑکی کی گھورتی ہوئی آنکھیں دیکھائی دے رہی تھی, جو زیان کو فٹ پاتھ پہ کھڑے دیکھ رہی تھی۔۔۔

شادی میں کم دن رہ گئے ہیں اور اسکول والے مجھے نہ جانے کب چھٹی دیں گے۔ انجبین تم فاریہ کے ساتھ جا کر کپڑے تو سلائی کے لیے دے آو اور اپنےجوتے بھی لے آنا۔ ماں انجبین سے مخاطب تھی جو کہ اس وقت ہینڈ فری لگائے مزے سے گانے سننے میں مصروف تھی۔۔۔فاریہ نے اسے متوجہ کرنے کے لیے تھپکی سی دی, اگلے ہی لمحے فاریہ صوفہ پہ اوندھے منہ گری ہوئی درد کے باعث ہائے ہائے کر رہی تھی۔۔ فاریہ کا ہاتھ لگتے ہی انجبین نے اس قدر زور دار لات ماری کہ بیچاری فاریہ ایک سائڈ پر جھک گئی۔۔۔ انجبین نے گھور کر فاریہ کی طرف دیکھا ایسے جیسے وہ اگلے ہی لمحے اسے کچا چبا جائے گی۔
انجبین میں بلا رہی ہوں تمھیں کیوں اس بیچاری کی ہڈیاں توڑنے لگی ہو, ماں نے جلدی سے انجبین کو روکا اور اشارے سے کانوں میں سے ہینڈ فری نکالنے کا اشارہ کیا۔۔ اجبین ماں کی طرف متوجہ ہو گئی تھی کیوں کہ شاپنگ کا اسے جنون تھا۔ اب تو موقع بھی تھا وہ بھی اکیلے فاریہ کے ساتھ,,,,,فاریہ کے ساتھ اکیلی ہی سمجھو اس کی رائے اور مشورہ کس نے لینا ہے,خود ہی کرنا ہے جو بھی کرنا ہے۔۔
پہلے جلدی جلدی میں تیار ہوتے ہوئے انجبین کا شور اس کے بعد فاریہ کی شکایتیں سنائی دینے لگتی۔ان دونوں بہنوں کے گھر سے جانے کے بعد ماں نے سکھ کا سانس لیا اور ہدایت بھی دی کہ مغرب کی اذان سے پہلے واپس آجانا۔
مارکیٹ میں ہی اس قدر دیر ہو گئی اوپر سے انجبین کی پسند کا ملنا بھی بے حد دشوار تھا جسکی وجہ سے دیر تو ہونا ہی تھی۔ فاریہ کے بار بار کہنے پر کہیں جا کر انجبین واپسی کے لیے رضامند ہوگئی تھی لیکن اسکا منہ غبارے کی مانند پھولا ہوا تھا اور ابھی بھی وہ واپس جانے کے لیے خوشی خوشی تیار نہیں تھی۔۔۔ تقریبً گھسیٹتے ہوئے فاریہ انجبین کو شاپس سے باہر لائی ہی تھی کہ ایک گاڑی ایک دم سے ان کی طرف آتی ہوئی دیکھائی دی۔ اس سے پہلے کے گاڑی ان سے ٹکراتی گاڑی چلانے والے نے بروقت گاڑی کا رخ بدل دیا اور نہایت مشکلوں سے گاڑی کو ان سے دور لے گیا۔۔۔ انجبین تو لڑائی کرنے اور دو دو ہاتھ کرنے کو تیار تھی مگر فاریہ نے اسے بازو سے تھام لیے اور کحینچ کر آٹو تک لے گئی اور جلدی سے چلنے کا کہ بھی دیا , وہ جانتی تھی کہ اب رکنا یہاں پر مناسب نہیں ہے۔۔۔۔ رکشہ میں بیٹھنے کے باوجود انجبین کے ماتھے پر شکنیں ویسے ہی موجود تھیں۔۔۔ اور وہ رکشے سے باہر فٹ پاتھ پہ کھڑے اس لڑکےکودیکھ رہی تھی جس کی گاڑی سے وہ ابھی ابھی بچ کر آئی تھی۔
......................................................................

کیا کرتی ہو انجبین؟ گھر سے جاتے ہوئے بھی تمھارا منہ کھلا ہوا تھا اور اب واپس آئی ہو تب بھی بولے جا رہی ہو اللہ جانے بازار میں تم کیسے خاموش رہی ہو گی۔ ماں نے انجبین کی آواز سن لی تھی جو گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی مزید اونچی ہو گئی تھی جبکہ فاریہ اس کے پیچھے بیگز کے اٹھائے ہوئے چلی آرہی تھی۔ تمام سامان فاریہ کے ہاتھوں میں تھا جبکہ انجبین مزے سے آگےآگے چل رہی تھی اور ساتھ میں اس گاڑی والے کو بھی باتیں سنائے جا رہی تھی۔۔۔۔ابھی بمشکل وہ برامدے میں داخل ہی ہوئی تھی کہ پیچھے سے مین گیٹ پر بیل ہونے لگی۔۔ انجبین نے ایک نظر فاریہ کو دیکھا اور پھر دروازے کی جانب۔۔۔۔ اور پاؤں پٹختی ہوئی دروازہ دیکھنے چلی گئی۔۔۔

انجبین: جی کون؟
زیان: راشد صاحب کا گھر ہے یہ میں ان کے آفس سے آیا ہوں۔
اجبین: جی گھر ان کا ہے وہ یہاں نہیں ہیں دبئی میں ہوتے ہیں۔
زیان: مجھے معلوم ہے میڈم۔
انجبین: میڈم کون میڈم آپ کو جب پتہ ہے تو یہاں سے کیا لینے آئے ہیں۔۔۔ انجبین دروازے سے باہر نکل آئی۔
زیان: میں تو فائل لینے آیا ہوں ان کے آفاس کی طرف سے اور میڈم بصد ادب و احترام کہا ہے آپکو۔۔۔
انجبین: تم تم تم وہی ہو نا جو مارکیٹ میں ہم پہ گاڑی چڑھانے لگا تھا۔۔ اب ہمارے پیچھے آگئے ہو تم۔۔ رکو میں بلاتی ہوں بھائی کو اور ابا کو۔۔ انجبین کا پارہ پھر سے ہائی ہو گیا تھا۔۔۔
زیان: اوہ تو وہ آپ تھی اندھوں کی طرح سڑک کے بیچوں بیچ چل رہی تھی آپکو عقل ہے کے نہیں کہ سڑک پر کیسے چلا جاتا ہے۔ آج خلاف ء توقع زیان کو بھی غصہ آگیا تھا۔ زیان کو غصہ میں دیکھ کر انجبین ایک لمحے کو ڈر سی گئی۔۔

انجبین: مم میں بلاتی ہوں بھائی کو فائل دیں گے وہ آکر آپکو۔ انجبین کا منہ لٹک گیا تھا, وہ اپنی ڈانٹ سن کر ایسے ہو گئی تھی جیسے رو دے گی۔۔۔

انجبین کے گھر کے اندر جاتے ہی زیان نے اپنا ماتھا پیٹ لیا کہ یہ کیا کر دیا میں نے, راشد صاحب کو اگر پتہ لگ گیا تو نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پر سکتے ہیں۔۔۔۔

منہ بسورتی انجبین اندر داخل ہوئی تو آگے سے عابد بھائی کو آتے ہوئے دروازے میں ہی رک گئی اور بھائی کی طرف گھورتے ہوئے دیکھنے لگی۔
انجبین: باہر کوئی راشد بھائی کے آفس سے آیا ہے۔
عابد: کیوں خیریت تو ہے نا۔
انجبین: کوئی فائل لینے آیا ہے منحوس۔۔
عابد: اوئے ایسے نہیں بولتے, پاگل ہو کیا باہر سے سن لے گا۔۔
انجبین:ہاں تو سنتا رہے,,, پاؤں پٹختی انجبین اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔ عابد کے سامنے زیان بہت ادب سے پیش آیا اور جانے سے پہلے معزرت کرنا چاہتا تھا پھر یہ سوچ کر رک گیا کے نہ جانے لڑکی کا بھائی ہے کیسا ردعمل دے گا۔۔ زیان کو گھر جانے کی بھی جلدی تھی اور اوپر سے اب یہ معاملہ کہ لڑائی اور وہ بھی آفس کے ایسے امپلائر کے گھر والوں کے ساتھ جس کی مرضی سے یہاں لوگوں کو نوکری دی جاتی تھی۔۔
...................................................................

مس یاسمین کی بیٹی ہونے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا کبھی۔نہ ہی اسکول میں اور نہ کالج میں, بس پڑھنا خود ہی ہوتا ہے تنگ آگئی ہوں میں اس پڑھائی سے۔ انجبین مسلسل بولے چلی جا رہی تھی اسکے امتحانات بھی قریب آرہے تھے اوپر سے گھر میں شادی بھی۔۔
ماں: یاسمین کی بیٹی ہو ایسے رو دھو کر میں پاس نہیں ہوا کرتی تھی, گاؤں سے اتنا دور جاتی تھی پڑھنے کے لیے لگن تھی مجھ میں تمھیں تو یہاں سے وہاں چل کر جانا بھی نہیں ہوتا تب بھی نخرے کرتی ہو۔۔۔ یاسمین بھی روائتی ماؤں کی طرح اپنے زمانے کو اچھا اور لگن سے بھرپور کہ رہی تھی۔ آج کل کے بچے بچیوں کو تو شوق ہی نہیں ہے بس یہ موبائل اٹھائے رکھتے ہیں ہاتھوں میں نہ کسی کام کا حوش نہ کسی کی پرواہ۔۔انجبین کی اچھی خاصی کلاس ہو رہی تھی اور وہ اب سوچ رہی تھی, کیا برا ہوتا اگر وہ یہ بات ہی نہ کرتی۔۔۔
انجبین: امی اچھا بس کریں نا مجھے تو اب یاد ہو چکا ہے کہ کیسے آپ آتی تھیں جاتی تھیں اچھا اب بس کر دیں نا۔۔۔۔
ماں بیٹی کے درمیان اکثر جنگ جاری ہی رہا کرتی تھی۔ اس لڑائی کے دوران کاشف بھی گھر آچکا تھا اور ماں سے کھانا مانگنے کے لیے یہاں چلا آیا تھا۔۔ لیکن یہاں آنے کے بعد اسے پتہ چلا کے کھانا تو مل جائے گا مگر اس سے پہلے اجبین کی منت سماجت کرنی ہو گی, کیوں کے مہمان آگئے تھے اور ماں ان کے ساتھ مصروف ہو چکی تھی۔۔۔

کاشف: فاریہ کھانا ہی لا دو مجھے بہت بھوک لگی ہے۔
فاریہ: انجو آپی کو بولو میں کام کر رہی ہوں۔۔
کاشف: مل ہی نہ جائے کھانا پھر تو۔
انجبین:ہاں ہاں جلاد ہوں میں تو, میں تو دیتی نہیں کسی کو کچھ۔ کسی کام نہیں آتی میں تو ہوں ہی بری نا۔۔ انجبین کو چھیڑنا ایسا ہی تھا جیسے شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔ ۔۔
فاریہ: اچھا بابا میں ہی ڈال لاتی کھانا تم لوگ ایسے لڑائی کرتے ہو جیسے مسلہ فلسطین چل رہا ہے۔۔ فاریہ کے جانے کے بعد کاشف بھی وہاں سے چلا گیا اور انجبین اکیلی رہ گئی۔

دن ہی منحوس تھا پتہ نہیں کس کی شکل دیکھ لی تھی صبح صبح اس کے بعد تو پورا دن ہی برا گزرا میرا۔ صوفہ پہ دراز زیان آنکھیں بند کیے ہوئے بولے جا رہا تھا۔۔۔
ماں (شاہدہ): بیٹا میں بتاتی ہوں کس کا چہرہ دیکھا تھا تم نے آج صبح۔۔۔ماں کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔۔
زیان: کس کو اماں؟؟؟ زیان کو حیرت ہوئی کہ ماں کو یہ بات کیسے معلوم ہو سکتی ہے۔۔آج کل کون سا ہم گھر والوں کی شکل دیکھتے ہیں اٹھتے ساتھ ہی, آج کل تو ادھر آنکھ اوپن ہوئی ساتھ ہی ایف بی اور وٹس ایپ اوپن ہوا۔۔ ماں: بیٹا ویسے تو یہ جان لینا بہت مشکل ہے کہ آپ نے کس کو دیکھا تھا لیکن اگر اس وقت آنکھیں کھول کے دیکھ لو تو وہی چہرہ پھر سے دیکھائی دے گا۔۔۔
زیان: کون ہے اماں,,,,,, زیان نے ایک دم سے آنکھیں کھول کر دیکھا اور چیخ مار کر آنکھیں بند کر لی۔۔۔شم شم شموو مم میں تو مزاق کر رہا تھا پیاری بہن ہو نا تم تم تم کب آئی میرے سامنے آج ایسے ہی غصہ مت کرو نا پلیز پلیز۔۔۔۔ زیان نے صوفے کا کشن اٹھا کر منہ کے اوپر رکھ لیا تھا اور وہ پوری طرح سے حملہ ناکام بنانے کو تیار ہو گیا تھا۔۔۔ بچوں کو ایسے آپس میں لڑائی کرتے ہنستے کھیلتے دیکھ کر ماں بھی خوش ہو رہی تھی۔۔

شمائلہ: تم ِپٹو گے مجھ سے اب زیان۔ میں اتنی ہی بری ہوں نا تو چلی جاؤں گی یہاں سے پھر یاد آئے گی میری۔ شمائلہ نے بھائی کو ناراضگی سے دیکھا اور سامنے رکھے ٹیبل پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ ماں نے بیٹی کو اداس دیکھا تو بیٹے کو ڈانٹنے لگیں۔۔ زیان نے ماحول کو اداس ہوتے ہوئے دیکھا تو جلدی سے بات کا رخ بدلنے کی کوئی ترکیب سوچنے لگا۔۔۔ بہت سوچ بچار کے بعد بھی اسے کوئی بات سمجھ میں نہ آئی۔۔

شمائلہ کو اداس دیکھ کر زیان کو بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا اسی وجہ سے وہ بےچینی سے گھوم رہا تھا اور مسلسل بہن کو منانے کا کوئی طریقہ سوچ رہا تھا۔ اچانک اسکے ذہن میں ایک آئڈیا آگیا, اور زیان بھاگتا ہوا کمرے سے نکل آیا۔ سیڑھیاں کودتا پھلانگتا وہ ایک منٹ کے اندر اندر شمائلہ کے کمرے کے سامنے موجود تھا۔ زیان نے لمبی سانس لے کر اس نے دروازے پہ دستک دی۔ اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔ زیان نے پھر سے دستک دی تو اندر سے جواب آیا۔ شمائلہ کی آواز سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ بہت دیر سے رو رہی ہے۔۔ زیان: شمو آپا معاف کردو نا غلطی ہو گئی مجھ سے۔۔ زیان نے رک رک کر اپنی بات مکمل کی۔ شمائلہ: مجھے آپا نہ بولو میں کوئی اتنی بڑی نہیں ہوں تم سے۔۔ اس جواب کے بعد زیان نے مزید ہمت کی اور اپنی ہنسی کو دباتے ہوئے پھر سے بولا,
زیان: اچھا نہیں بولوں گا آپا, بس معاف کردو اور آؤ باہر چلتے ہیں۔
شمائلہ: نو نیور, مجھے نہیں جانا تمھارے ساتھ۔۔. شائلہ اپنے ابا کی بے حد لاڈلی تھی اسی لیے زیان سے بڑی ہونے کے باوجود سب سے زیادہ لاڈ پیار اسی کو ملا کرتا تھا۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے, بھائی چاہے چھوٹا ہی ہو, وہ اپنی بہنوں کا بڑا ہی ہوتا ہے۔۔۔ اسی وجہ سے شمائلہ اپنے چھوٹے بھائی سے بھی چھوٹی ہی تھی۔ شمائلہ کو منانے کے لیے مسلسل زیان دستک دینے لگا بل آخر وہ کامیاب ہو گیا جب شمائلہ تنگ آکر خود ہی باہر نکل آئی۔

شمائلہ اور زیان آئسکریم کھانے کے لیے باہر آئے ہوئے تھے۔ زیان بے حد تھکا ہوا تھا لیکن صرف اپنی بہن کے لیے رات گئے وہ مارکیٹ میں اس کے ساتھ آگیا تھا۔
زیان: آج پتہ ہے دیر کیوں ہوئی مجھے؟ زیان سپ لیتے ہوئے بولا, وہ اس وقت کافی پی رہا تھا اور شاپ سے باہر گزرتے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔

شمائلہ: یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں تم کام ہی کر رہے ہو گے۔۔۔۔ شمائلہ نے بیزاری سے جواب دیا اور آئسکریم انجوائے کرنے لگی۔۔

زیان: ارے نہیں بابا ایسا کچھ بھی نہیں ہے, کام تو ختم تھا بس ایک فائل لینے گیا تھا اس وجہ سے دیر ہو گئی۔ اور اس سے پہلے ایک لڑکی۔۔

لڑکی کا ذکر سنتے ہی شمائلہ کا منہ کھلاکا کھلا رہ گیا اور چمچہ ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔ وہ حیرانگی سے زیان کو دیکھنے لگی۔

شمائلہ: زیزو لڑکی کون؟ کہاں سے آئی یہ لڑکی؟ شمائلہ نے عجیب انداز سے ابرو کو جنبش دی۔

زیان: وہی تو سوچ رہا کہ کیسے آئی لڑکی, پتہ ہے جیسے ہی دفتر سے نکلا میں تو تھوڑے سے دور گیا تھا کہ اچانک ایک نہیں دو لڑکیاں سامنے آگئی تھیں۔۔

شمائلہ: یک نہ شد دو شد واہ واہ کیا بات ہے میرے بھائی کمال ہو گیا آج تو, اور تم کہتے کے دن منحوس تھا۔۔

زیان: ارے بابا وہ لڑکی میرے باس کی بہن ہے جو دبئی میں ہوتے ان کے گھر ہی چلا گیا فائل لینے اور ہمارے بیچ بحث بھی ہو گئی, میں نے اسے ڈانٹ بھی دیا۔۔ اب پتہ نہیں میری نوکری کا کیا بنے گا۔۔۔ زیان سچ مچ پریشان تھا۔

شمائلہ: معافی مانگ لیتے نا ۔
زیان: موقع ہی نہیں ملا فائل دینے اس کا بھائی آگیا تھا۔
شمائلہ: تمھیں کیا معلوم وہ باس کی بہن ہے کیا پتہ بیوی ہو۔
زیان: افف شمو باس کی بیوی ان کے ساتھ رہتی ہیں۔
شمائلہ: چلو دفع کرو اس بات کو, کافی ٹھنڈی ہو رہی ہے تمھاری۔

محمد اسامہ عارف
About the Author: محمد اسامہ عارف Read More Articles by محمد اسامہ عارف: 13 Articles with 15244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.