آپ کے بچے کو محظوظ کرنے والا انٹرنیٹ کب اور کیسے ان کی شخصیت، ذہن اور زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اور اسے کیسے روکا جائے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
بچہ تین ماہ کا ہوتا ہے تو والدین اسے بہلانے کے لیے فون پر یوٹیوب پر کوکو میلن یا بے بی شارک لگا دیتے ہیں۔
بچہ تین یا چار سال کا ہوجاتا ہے تو وہ یوٹیوب پر اپنے پسندیدہ کارٹون خود ڈھونڈ کر لگا لیتا ہے اور جب وہ آٹھ، نو سال کا ہوتا ہے تو اپنے ماں باپ سے کہتا ہے مجھے سمارٹ فون اور یوٹیوب چینل بنا کر دیں، میں شیراز کی طرح وی لاگز بناؤں گا-
بچے اور ان کا انٹرنیٹ سے تعلق اب ہر گھر کی کہانی ہے لیکن اس کہانی ایک دوسرا رخ بھی ہے۔
اسی انٹرنیٹ پر ہر روز دنیا بھر میں ہزاروں بچے ایسی ویڈیوز اور مواد دیکھتے ہیں جو ان کے معصوم ذہنوں کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔
آپ کے بچے کو محظوظ کرنے والا انٹرنیٹ کب اور کیسے ان کی شخصیت، ذہن اور زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اور اسے کیسے روکا جائے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
آپ کے بچے کو انٹرنیٹ پر کیا خطرہ ہے؟
جب والدین یا کوئی سرپرست تین چار سال کے بچے کو یوٹیوب پر کوئی نظم یا کارٹون لگا کر دیتا ہے تو ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کسی زمانے میں ان کے والدین انھیں ٹی وی پر کارٹون لگا کر دے کر خود اپنے کام میں مصروف ہوجاتے تھے۔ لیکن یہ درست نہیں۔
کیونکہ جب آپ خود یا آپ کا بچہ یوٹیوب پر کوئی ویڈیو دیکھ رہا ہوتا ہے تو آپ کو یا اسے شاید یہ معلوم نہیں ہے اس ویڈیو کے بعد خود بخود چلنے والی اگلی ویڈیو کون سے ہو گی۔ وہ کوئی تشدد سے بھرپور یا پھر شاید کوئی فحش یا اس کی عمر کے لیے نامناسب ویڈیو بھی ہوسکتی ہے۔ ایسے مواد کا بچے کے ذہن پر منفی اثر پڑتا ہے۔
اگر آپ کا بچہ چھ، سات برس کا ہے تو وہ خود بھی وائس اسسٹنٹ کی مدد سے انٹرنیٹ اور یوٹیوب پر مختلف مواد سرچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جانے ان جانے میں ایسا مواد سرچ کرے جو اس کی عمر کے مطابق نہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ گوگل، یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک اور دیگر تمام سوشل میڈیا ایپس اور ویب سائٹس اپنے صارفین جن میں بچے بھی شامل ہیں کا ڈیٹا اکھٹا کرتی ہیں۔ اس ڈیٹا میں ان کا نام، عمر، وہ کیا دیکھتے ہیں اور کتنی دیر تک دیکھتے ہیں جیسی معلومات شامل ہوتی ہیں۔ یہ ڈیٹا کب اور کن مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس بارے انٹرنیٹ کمپنیز کی جانب سے کبھی واضح جواب نہیں ملا ہے۔
اس کے علاوہ واٹس ایپ، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ جیسی سوشل میڈیا ایپس کے علاوہ پب جی جیسی گیمز میں میسج کرنے کی سہولت بھی ہوتی ہے اور اگر آپ کے بچے کی ان ایپس تک رسائی ہے تو مکمن ہے وہ کسی اجنبی شخص کے ساتھ رابطے میں ہو جو اس کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ نازیبا گفتگو کرتا ہو یا ان کے ساتھ جنسی مواد جیسا کہ تصاویر اور ویڈیوز شئیر کرتا ہو یا انھیں بہکا کر ان سے جنسی فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہو۔
لاپتہ بچوں کی تلاش اور انھیں ان کے والدین تک پہنچانے والے ادارے روشنی نے انکشاف کیا کہ انھیں ملنے والے متعدد بچوں نے انھیں بتایا کہ انھوں نے کسی ایسے اجنبی کے کہنے پر گھر چھوڑا جن کے ساتھ ان کا رابطہ واٹس ایپ یا دیگر ویب سائٹس پر موجود چیٹ گروپس میں ہوا تھا۔
اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے بچے کی تصاویر کو غلط طرح سے ایڈٹ کر کے انٹرنیٹ پر شئیر کیا جائے یا اس کے نام سے فیک اکاؤنٹ بنا لیا جائے جس کا بعد میں غلط استعمال ہو۔
بچوں کے استحصال کی ایک نہایت گھناؤنی شکل چائلڈ پورنوگرافی ہے۔ اس میں بچوں کو جنسی تشدد کا شکار بنا کر ان کی ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال قصور میں سنہ 2006 سے 2015 تک ہونے والے واقعات ہیں جہاں تین سو سے زائد بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر ڈال کر ان کو بلیک میل کیا گیا۔
اس کے علاوہ اگر آپ کا بچہ وی لاگنگ کرتا ہے تو مکمن ہے کہ کچھ لوگ ان ویڈیوز کے نیچے نفرت انگیز کمنٹس کرتے ہوں یا ان کا مزاق اڑاتے ہوں یا نازیبا زبان کا استعمال کرتے ہوں جن کا اثر آپ کے بچے کی ذہنی صحت اور اس کی خود اعتمادی پر پڑسکتا ہے۔
ان خطرات سے آگاہی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انٹرنیٹ صرف نقصان دہ چیز ہے بلکہ اس کے کے بہت سے فوائد بھی ہیں جس کی وجہ سے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے اب انٹرنیٹ کمپنیوں نے ایسے بہت سے طریقے اور ٹولز متعارف کروائے ہیں جن کو استمال کرتے ہوئے آپ اپنے بچے کے لیے انٹریٹ کا استعمال محفوظ بنا سکتے ہیں۔
بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کو انٹرنیٹ پر کیسے محفوظ رکھیں؟
انٹرنیٹ کمپنیوں کی جانب سے بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کی حفاظت کے لیے الگ جبکہ 13 سے 18 برس کے بچوں کے لیے الگ طریقہ کار مرتب کیا ہے۔
اس تحریر میں ہم بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کو انٹرنیٹ پر محفوظ بنانے سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
یوٹیوب کو بچوں کے لیے کیسے محفوظ بنائیں؟
یوٹیوب بچوں میں سب سے مقبول انٹرنیٹ ایپ ہے جس کا استعمال چند دن کے بچے سے لے کر 18 سال کے نوجوان تک بڑے شوق سے کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یوٹیوب پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیوز میں بچوں کی نرسری رائمز یعنی نظمیں سرفہرست ہیں۔
بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کے لیے گوگل نے بچوں کے لیے علیحدہ ایپ ’یوٹیوب کڈز‘ متعارف کروائی ہے جو بچوں کی حفاظت کو مدِ نظر رکھنے ہوئے بنائی گئی ہے۔
آپ اس کو گوگل پلے سٹور اور ایپل سٹور سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
یوٹیوب کڈز پر بچے کیا دیکھیں اور کیا نہ دیکھیں اس کا کنٹرول والدین کو دیا گیا ہے۔ اس لیے بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کے لیے کوشش کریں صرف یوٹیوب کڈز کا ہی استعمال کریں۔
عام یوٹیوب ایپ کے مقابلے بچہ اس ایپ کو بغیر لاگ ان کیے استعمال نہیں کر سکتا۔ ایپ کو لاگ ان کرنے کے لیے کسی بالغ شخص (والدین میں سے کسی ایک) کے ای میل کی شرط لازمی ہے۔ جس کے بعد والدین اپنے بچے کا پروفائل بنا سکتے ہیں۔
یو ٹیوب کڈز پر بچوں کی عمر کی مناسبت سے تین اقسام کا مواد موجود ہے: چار سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کے لیے، پانچ سے آٹھ سال تک کے بچوں کے لیے اور نو سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے۔ آپ اپنے بچے کی عمر کے مطابق اس مواد کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
اس ایپ پر ایسی ویڈیو یا چینل کو بھی بلاک کر سکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں آپ کا بچہ نہ دیکھے۔
اس کے علاوہ جس ای میل آئی ڈی سے یوٹیوب کڈز کا لاگ ان بنایا گیا ہے، اگر اس آئی ڈی کا استعمال عام یوٹیوب ایپ استعمال کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے تو والدین اپنے یوٹیوب سے ایسی ویڈیوز اپنے بچوں کے یوٹیوب کڈز کے پروفائل پر شیئر کر سکتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ دیکھے۔
یوٹیوب کڈز کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کا سرچ آپشن بلکل بند بھی کرسکتے ہیں اور بچہ صرف والدین کے منتخب کردہ چینلز اور ویڈیوز دیکھ سکتا ہے۔
والدین کے پاس یہ بھی سہولت میسر ہے کہ وہ بچوں کا سکرین ٹائم کنٹرول کر سکیں اور طے شدہ وقت کے بعد ایپ خود با خود بند ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس ایپ پر یوٹیوب شارٹس اور کمنٹس کرنے کا آپشن دستیاب نہیں۔ اور والدین اپنے بچے کی سرچ ہسٹری بھی دیکھ سکتے ہیں۔
یہ سہولیات عام یوٹیوب ایپ میں شامل نہیں۔
گوگل کے فیملی لنک نامی ایپ استعمال کر تے ہوئے آپ اپنے بچے کے یوٹیوب کڈز اکاؤنٹ کی نگرانی اور اسے کنڑول کر سکتے ہیں۔
اگر بچہ وی لاگنگ کرنا چاہے تو اس کو کیسے محفوظ بنائیں؟
تیرہ سال سے کم عمر بچوں کو اپنا یوٹیوب کرییٹر اکاؤنٹ بنانے کی اجازت نہیں اس کے لیے والدین میں سے کسی کا یا کسی بالغ شخص کا ای میل آئی ڈی ضروری ہے۔
اگر آپ کا بچہ وی لاگنگ کرنا چاہتا ہے تو اسے وقت کا ضیاع قرار دے کر رد نہ کریں کیونکہ اس کے ذریعے آپ کا بچہ بہت سے ہنر جیسے کہ ویڈیو ایڈیٹنگ اور پبلک سپیکنگ سیکھتا ہے اور انٹرنیٹ کے اس دور میں یہ ہنر بہت اہم جانے جاتے ہیں۔
اس لیے ضروری یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے اپنے بچے سے یہ پوچھیں کہ وہ کس موضوع میں دلچسپی رکھتا ہے، کس قسم کی ویڈیوز بنانا چاہتا ہے اور اپنے یوٹیوب چینل کا نام کیا رکھنا چاہتا ہے۔
اس کے بعد آپ اپنی نگرانی میں یہ ویڈیوز بنوا کر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔
اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان ویڈیوز پر یا تو لوگوں کے کمنٹس بند کر دیں تاکہ آپ کا بچہ نفرت انگیز اور اس کی کوششوں کا مزاق اڑانے والے کمنٹس نہ پڑھ سکے جو اس کے اعتماد کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو کوشش کریں کہ کمنٹس کو باقاعدگی سے پڑھیں اور قابل اعتراض کمنٹس کو ڈیلیٹ کریں۔
کوشش کریں کہ چینل اور ویڈیوز میں کہیں بھی آپ کے بچے کا پتہ، سکول کا پتہ اور وہ کہاں کھیلنے جاتا ہے اس متعلق کوئی بھی معلومات موجود نہ ہو۔
سکول کے یونیفارم میں یا سکول کے باہر کے شاٹس جس سے سکول کی شناخت ممکن ہو ویڈیوز میں ہرگز شامل نہ کریں۔
اس کے علاوہ، اپنے بچے کے دوستوں کو ان کے والدین کی اجازت کے بغیر اپنی ویڈیو میں نہ دیکھائیں۔
ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور پب جی پر بچوں کی حفاظت کیسے ممکن بنائیں؟
ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور پب جی ایپس تیرہ سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں کے لیے بنائی گئی ہے لہذا بارہ سال اور اس سے کم عمر بچوں کو ان ایپس کا استعمال نہ کرنے دیں۔
پلے سٹور اور ایپل سٹور پر والدین کا کنڑول
اگر آپ کے بچے کے پاس ایپل کا فون یا آئی پیڈ ہے تو اس کو فیملی شئیرنگ کے ذریعے سیٹ اپ کریں۔
اس کے لیے آپ اپنے اپیل ڈیوایس پر سیٹنگ پر کلک کریں اور اپنے ایپل آئی ڈی پر کلک کریں۔ یہاں آپ کو فیملی شیئرنگ کا آپشن ملے گا۔
اس آپشن کے ذریعے آپ بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کا ایپل آئی ڈی بنا سکتے ہیں جس کو آپ ان کے فون یا آئی پیڈ میں لاگ ان کر سکتے ہیں۔
فیملی شئیرنگ فیچر کے ذریعے آپ کے بچے کو کوئی بھی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے سے پہلے آپ کی اجازت کی ضرورت ہوگی اور آپ اس کے ذریعے اپنے بچے کا سکرین ٹائم بھی کنٹرول کر سکتے ہیں۔
اسی طرح اگر گوگل پلے سٹور کو آپ اپنے ای میل سے لاگ ان کر کے اس کی سیٹنگ میں جاکر فیملی کنڑول کا آپشن سلیکٹ کرتے ہیں تو آپ کا بچہ آپ کی اجازت کے بغیر کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ نہیں کر سکتا۔
اپنے بچے سے بات کریں
ان سب احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے بچے کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھیں اور ان سے بات کریں کہ وہ انٹرنیٹ پر کیا دیکھتے ہیں اور وہ دیکھ کر وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ کہیں انھوں نے کوئی ایسی چیز یا ویڈیو تو نہیں دیکھی جس کی وجہ سے وہ پریشان یا تجسس میں ہیں۔ ان کے سولات کا ان کی فہم کے مطابق جواب دیں۔
بچوں کو انٹرنیٹ پر کسی اجنبی شخص کے پیغام کا جواب دینے سے منع کریں اور اگر کوئی انھیں میسج بھیجے تو ان کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ آپ کو اس بارے میں بتائیں۔
مسئلہ ادارے کو رپورٹ کریں
اگر آپ کے بچے کا فیک اکاؤنٹ بنایا جاتا ہے کہ اس کی تصاویر اور ویڈیوز آپ کی اجازت کے بغیر شئیر کی جاتی ہیں تو اس کو متعلقہ کمپنی کو رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے میں بھی اس کی شکایت درج کروائیں۔ پی ٹی اے آپ کو اس مواد کو ڈیلیٹ کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ آپ یہ شکایت https://complaint.pta.gov.pk/RegisterComplaint.aspx پر درج کروا سکتے ہیں۔
شکایت درج کروانے کے لیے اوپر دیے گئے لنک پر کلک کریں اور اپنی معلومات فراہم کرنے کے بعد Unlawful Online Content Related Complaint کا آپشن سلیکٹ کریں اور تفصیلات فراہم کریں۔
اگر کوئی شخص یا گروہ آپ کے بچے کو جنسی یا کسی بھی طرح کے نازیبا میسیجز بھیجے تو اس کی شکایت فوری طور پر ایف آئی اے کو کریں اس طرح آپ اپنے بچے کے ساتھ ساتھ بہت سے بچوں کو جنسی استحصال سے بچا سکتے ہیں۔