کیا بائیڈن کے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے فیصلے نے دہائیوں پرانے اتحادیوں کے تعلقات میں ’دراڑ‘ ڈال دی ہے؟

سلحے کی ترسیل امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کی بنیاد ہے مگر چار دہائیوں میں پہلی بار اس میں شگاف دیکھا گیا ہے۔ جو بائیڈن پر امریکہ اور دوسرے ممالک کی جانب سے مستقل دباؤ رہا ہے کہ وہ غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور بگڑتے ہوئے انسانی بحران کو روکنے میں مدد کریں۔ آخر کار انھوں نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا، جو خطے میں امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے۔
بائیڈن، نتن یاہو
AFP

امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ہفتے کے دوران دنیا کے سب سے اہم علاقائی تعلقات میں دراڑ ڈال دی ہے۔

ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران جب جو بائیڈن سے پوچھا گیا کہ اگر اسرائیل رفح پر حملہ کرتا ہے تو کیا ہو گا؟ امریکی صدر نے جواب دیا ’میں ہتھیار فراہم نہیں کروں گا۔‘

اسلحے کی ترسیل امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کی بنیاد ہے مگر چار دہائیوں میں پہلی بار اس میں شگاف دیکھا گیا ہے۔

جو بائیڈن پر امریکہ اور دوسرے ممالک کی جانب سے مستقل دباؤ رہا ہے کہ وہ غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور بگڑتے ہوئے انسانی بحران کو روکنے میں مدد کریں۔

آخر کار انھوں نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا، جو خطے میں امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے سابق تجزیہ کار ایرون ڈیوڈ ملر کہتے ہیں کہ بلاشبہ جنگ کے آغاز سے جو بائیڈن، اسرائیل کی حامی ریپبلکن پارٹی اور اپنی انتہائی منقسم جماعت ڈیموکریٹک کے درمیان سیاسی تقسیم میں پھنس چکے ہیں۔

’جو بائیڈن ابھی تک ایسا کچھ بھی کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے رہے ہیں، جس سے امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کو کوئی نقصان پہنچے۔‘

پیر کے روز اسرائیل نے کہا کہ اس کی افواج شہر کے مشرقی حصے میں ’ٹارگٹڈ کارروائیاں‘ شروع کرنے والی ہیں۔ رہائشیوں کے مطابق انھوں نے مسلسل شیلنگ کی آوازیں سنیں جبکہ پہلے سے مشکلات کے شکار ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ سے بچنے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور انھیں رہائش، خوراک اور پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے کئی بار رفح شہر پر حملے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جہاں تقریباً دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔

نتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہاں چھپی حماس کی بقایا چار بٹالین کو ختم کرنے کے لیے بڑے آپریشن کی ضرورت ہے اور یہ آپریشن جنگ بندی کے مذاکرات سے قطع نظر ہر صورت کیا جائے گا۔

واشنگٹن نے اسرائیل کو مبینہ طور پر ایسا آپریشن نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

ڈیوڈ ملر کہتے ہیں کہ امریکی صدر کو ڈر ہے کہ رفح پر حملہ جنگ ختم کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے مواقع کو کم کر دے گا۔

ڈیوڈ ملر کے مطابق جو بائیڈن اسرائیل کے ہمسایہ ملک مصر کے ساتھ کشیدگی سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔

’یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ رفح پر حملے سے ڈیموکریٹک پارٹی میں تقسیم مزید بڑھے گی، لہذا امریکی صدر نے ایک سگنل بھیجا ہے۔‘

جو بائیڈن کے انٹرویو کے بعد امریکہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی ایک کھیپ ’روک‘ دی، جس میں دو ہزار اور پانچ سو پاؤنڈ وزن کے بم تھے۔

غزہ
AFP

امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے مجھے بتایا کہ فضائی کارروائیوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں اور شہری علاقوں میں ان کے اثرات پر خاص تشویش پائی جاتی ہے، ’جیسا ہم نے غزہ کے دیگر حصوں میں دیکھا۔‘

اسرائیل کے اسلحہ خانے میں دو ہزار پاؤنڈ والے بم سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیاروں میں سے ایک ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کو ختم کرنے کے لیے اس طرح کا جنگی سازوسامان ضروری ہے۔

امریکی انتظامیہ کے اس اہلکار نے یہ بھی کہا ’جوائنٹ ڈائریکٹ اٹیک اایمونیشین‘ (جے ڈی اے ایم) کٹس کی ترسیل پر بھی غور جاری ہے، ایسی کٹس جو اہداف کا تعین نہ کرنے والے بموں کو سمت کا تعین کرنے والے بموں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

جمعے کے روز امریکی محکمہ خارجہ نے اس برس کے آغاز کی ایک رپورٹ جاری کی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں جاری جنگ کے دوران بعض مواقع پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال کیا۔

لیکن رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ابھی اس بارے میں ’مکمل معلومات‘ دستیاب نہیں یعنی اسرائیل کو فوجی امداد جاری رکھی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تاہم امریکی فوج کے ایک سابق سینیئر اہلکار کرنل جو بوکینو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوج اپنے پاس پہلے سے موجود ہتھیاروں کی مدد سے بھی رفح میں کارروائی کر سکتی ہے۔

واشنگٹن ہر برس اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔ کانگریس نے حال ہی میں اس میں 17 ارب ڈالر کے مزید ہتھیار اورڈیفینس سسٹم کو شامل کیا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل، اس مہلک امریکی امداد کو موصول کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔

کرنل جو بوکینو کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے روکی گئی اسلحے کی یہ کھیپ رفح پر کسی حملے کے لیے ’کسی حد تک ضروری نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک طرح سے ان امریکی شہریوں کے لیے ایک سیاسی ڈرامہ ہے، جن میں اس معاملے کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔

ایسا حقیقت میں ہے یا نہیں لیکن ایسا کرنے سے امریکی صدر کی سیاسی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ بائیڈن کے اس اقدام کے بعد امریکی سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے ہنگامہ دیکھا گیا۔

بائیڈن، نتن یاہو
EPA

امریکی سینیٹر پیٹ ریکیٹس نے خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی ایک ملاقات کے بعد مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں جنگی سازوسامان کو روکنا اشتعال انگیز ہے۔‘

جب میں نے انھیں کہا کہ اسرائیل کے پاس اس کے باوجود بھی حملے کے اپنے منصوبے کو مکمل کرنے کے ذرائع تو موجود ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک دہشتگرد تنظیم کے خلاف اپنے اتحادی کا ساتھ دینے کے متعلق ہے۔‘

ریپبلکن پارٹی کے ایک اور سینیٹر جان باراسو نے کہا کہ اسرائیل کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خودمختاری کی حفاظت کے لیے جو کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق بائیڈن کے اس اقدام نے ایک چیز کو واضح کیا: ’اس صدر کی کمزوری۔‘

لیکن بائیڈن کی اپنی پارٹی میں اس اقدام کو خاصا سراہا گیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر کرس کونز نے دو ماہ پہلے، رفح پر حملے کی صورت میں اسرائیل کی فوجی امداد پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’غزہ میں جاری تنازع، ہم میں سے بہت سے ان لوگوں کے لیے انتہائی تکلیف کا سبب بنا، جو خود کو اسرائیل کے حامیوں میں شمار کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ غزہ میں جاری انسانی بحران پر بھی انتہائی فکر مند ہیں۔‘

کرس کونز نے کہا کہ ’یہ پہلی حقیقی بریک ہو سکتی ہے۔‘

لیکن امریکہ کی نتن یاہو کے ساتھ یہ ’بریک‘ بھی ایک ایسے نازک وقت میں سامنے آئی ہے، جب حماس کی حراست میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں جنگ بندی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

قاہرہ میں ہونے والے یہ مذاکرات اس ہفتے کے شروع میں بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہو گئے۔

اسرائیل کے کچھ مبصرین کے مطابق بائیڈن کے اس اقدام سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہونے والے مذاکرات پر اثر پڑے گا اور رفح پر اسرائیلی حملے کے خطرے کو ختم کرنے کی کسی بھی کوشش سے حماس کو فائدہ ہو گا تاہم ان مذاکرات کی دستیاب تفصیلات کی روشنی میں اس دعوے کے بارے میں کوئی اندازہ لگانا مشکل ہے۔

اس سارے معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ حماس کی جانب سے جنگ کے مستقل خاتمے کا مطالبہ ہے، جس کو اسرائیل مسترد کرتا ہے۔

جو بائیڈن اور نتن یاہو کے درمیان تعلقات پانچ دہائیوں سے ہیں، اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔

جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ جب یہ دونوں رہنما جوان تھے تو انھوں نے ایک تصویر پر دستخط کیے اور لکھا کہ ’بی بی، مجھے تم سے پیار ہے لیکن مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں، جو آپ نے کہنی ہے۔‘ یہ تصویر بعد میں نتن یاہو کی میز کی زینت بنی۔

AFP
AFP

نتن یاہو نے امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل کی حمایت پر اکثر ان کی تعریف کی ہے لیکن فلسطینیوں کے حوالے سے اکثر پالیسی معاملات پر یہ دونوں ایک صفحے پر نظر نہیں آئے۔

سات اکتوبر کے حملوں کے بعد جو بائیڈن اسرائیل گئے اور تل ابیب میں نتن یاہو کو گلے لگایا۔

میں وہاں موجود تھا جب بائیڈن نتن یاہو کے ساتھ ملاقات کر کے باہر آئے اور اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا لیکن اس موقع پر انھوں نے خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ’وہ غلطیاں مت دہرائیں جو ہم نے نائن الیون کے حملوں کے بعد کیں۔‘

اور پھر انھوں نے واضح کیا کہ ان کا مطلب کیا ہے۔ ’فلسطینی لوگ بھی بہت زیادہ تکیلف میں ہیں اور پوری دنیا کی طرح، ہم بھی معصوم فلسطینیوں کی جانوں کے ضیاع پر غمزدہ ہیں۔‘

بائیڈن کے اسرائیل کو اسلحے کی ترسیل روکنے سے متعلق اعلان کے بعد جمعرات کے روز نتن یاہو نے جواب دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہمیں اکیلا بھی کھڑا ہونا پڑا، تو ہم کھڑے ہوں گے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنے ناخنوں سے بھی لڑیں گے۔‘

میں نے نتن یاہو کا یہ بیان ڈیموکریٹک پارٹی کے کرس کونز کے سامنے رکھا تو انھوں نے کہا ’انھیں اپنے ناخنوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں۔ وہ جدید ہتھیاروں سے لڑیں گے، جو انھوں نے مل کر ہمارے ساتھ تیار کیے اور جو بہت سے مواقع پر ہماری جانب سے مہیا کیے گئے لیکن انھیں یہ اس طریقے سے کرنا ہو گا جس سے عام شہریوں کی ہلاکتیں کم سے کم ہوں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.