کرسچن زائنزم

راٹر عابد رضا

قارئین کے لیے ’’عیسائی صیہونیت‘‘ یا ’’کرسچن زائنزم‘‘ کی اصطلاح وقت کی تبدیلی کے ساتھ اب نئی نہ رہی ہوگی۔ کم ازکم امریکا میں تو یہ بہت تیزی کے ساتھ پھیل ہی چکی ہے۔یہ ایک جدید پھیلتا ہوا نظریہ ہے جس پر خود معروف امریکی مصنفہ گریس ہال سیل،اپنی کتاب ’’فورسنگ گاڈس ہینڈس‘‘ (’’خوفناک جدید صلیبی جنگ‘‘) میں بہت عرصے قبل ہی حیران کن تفصیلی انکشافات کرچکی ہیں۔ اس نے بتایا ہے کہ آج کے دور میں کل کے ’’یہودیوں کے خون کے پیاسے عیسائی‘‘ اب آگے بڑھ کران سے بھی زیادہ یہود دوست ہوگئے ہیں اور پورا فلسطینی علاقہ یہودیوں کو دینے کے حق میں مسلسل عالمی دباؤ ڈال رہے ہیں جو چو طرفہ بھی ہے۔ ایک طرف وہ اپنے امریکی عیسائیوں کو متاثر کررہے ہیں تو دوسری طرف کانگریس، سینیٹ، امریکی صدور او ر مسلم حکومتوں تک کو دباؤ میں لارہے ہیں۔ مصنفہ کے کیے گئے انکشافات وہ ہیں جن سے ہماری تمام مسلم حکومتوں کے کان بہت زیادہ کھڑے ہونے چاہییں۔ لیکن افسوس کہ کسی بھی مسلم حکمران طبقے کو مطالعے اور غور و فکر سے دلچسپی ہی نہیں ہے۔ دنیاکے بدلتے ہوئے سنگین حالات اور مسلمانوں کے خلاف تابڑ توڑ مسلط کی جانے والی جنگوں کی اصل وجوہات دریافت کرنے سے وہ بالکل ہی انجان بنے بیٹھے ہیں۔

امریکا میں مسلمانوں کا ایک جدید تحقیقی ادارہ بنام ’’اسلامو فوبیا اسٹڈیز سینٹر‘‘ کے نام سے برکلے،کیلی فورنیا میں کام کررہا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو وہ اپنی تحقیقات سے مسلسل چوکنّا اور آگاہ کررہا ہے کہ غیر مسلم عیسائی و یہودی قوتیں مسلمانوں کے خلاف عرصۂ دراز سے بہت دورس، بہت تیز اوربہت گہری سازشوں میں مصروف ِعمل ہیں۔ اس لیے ہر سمت اور ہر حکومت سے انہیں بہت محتاط و چوکنّا رہنا ہوگا۔ کیونکہ ان کا ناپاک ارادہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے یکسر مٹادیا جائے۔ ادارے نے بہت دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ انہی گہری سازشوں کے باعث بڑھتی ہوئی عیسائی صیہونیت کے ساتھ اب ایک نئی صیہونیت مزید اُبھر کے سامنے آرہی ہے جس کا نام حیرت انگیز طور پر ان قوتوں نے ’’مسلم صیہونیت‘‘ رکھا ہے۔ اس کا آغاز فی الحال مشرق وسطیٰ سے ہوا ہے جب تمام مسلم عرب خطے، ماسوائے ایک دو کے، خونی و سیاسی یہودیوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے ساتھ انہوں نے اسی دیگر سہولیات بھی عطا کی ہیں۔ افسوس ناک طور پر اس نئے دائرے میں شامل ہونے کے لیے پاکستان بھی وقتاً فوقتاً پر پُرزے نکالتا رہتا ہے جس کے لیے فیلرس چھوڑے جاتے ہیں تاکہ رائے عامہ کی ذہن سازی کی جاسکے۔ مسلمان اورصیہونیت کے ہمدرد؟۔ سنتے ہی بہت عجیب سالگتا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ ہمارے سامنے یہ صیہونیت مسلسل مصروف ِعمل ہے۔ صیہونیت کے پھیلاؤ کی خاطریہودیوں کے ساتھ مسلمان بھی اب ان کا ساتھ دیں گے، ہزاروں برس سے موجود مسلم فلسطینیوں کو قتل کریں گے، اور قبلۂ اول بیت المقدس کو شہید کرکے ان کے ہزار سال قبل مسمار شدہ ہیکل کی تعمیر میں مدد دیں گے۔

مذکورہ تحقیقاتی ادارے نے بتایا ہے کہ جنگِ عظیم اول کے بعد جب خلافت عثمانیہ کی بندر بانٹ ہوہی تھی، تو یروشلم کو برطانیہ کے زیرانتظام دے دیا گیا تھا۔ بے تحاشا بمباری ہورہی تھی اور شہرکے مقدس مقامات کا تحفظ مشکل ہوتا جارہا تھا۔ شہر کا چارج لینے والا برطانوی کمانڈر جنرل ’’ایڈمنڈ ایلن بی‘‘ یروشلم شہر میں پیدل داخل ہوا اوربر سرعام اعلان کیا کہ ’’آج جاکر صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوا ہے‘‘۔ اس دور کے وزیراعظم برطانیہ ’’لائید جارج‘‘ نے یہی بات دہرائی کہ ’’آج کے دن برطانوی شہریوں کے لیے یروشلم کی فتح، کرسمس کا ایک بڑا تحفہ ہے‘‘۔ واضح رہے کہ یہ ۱۶؍ اور ۱۷ دسمبر ۱۹۱۷ء کی بات ہے۔ دوسری طرف ایک اور برطانوی اخبار نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن رچرڈ شیر دل کی تصویر لگائی، جو صیہون کی پہاڑی سے نیچے یروشلم شہر کو جھانک رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ’’میرا خواب آج پورا ہوگیا‘‘۔ ادھر برطانوی فوج نے بھی انہی الفاظ کے ایک خفیہ میمو کا اجرا کیا تھا۔ لیکن بعد میں اس سے یہ الفاظ حذف کردیے گئے تھے، کیونکہ برطانوی افواج میں ایک بڑی تعداد مسلم سپاہیوں اور افسران کی بھی خدمات انجام د ے رہی تھی اوربرطانیہ کو خدشہ ہوا کہ کہیں ان الفاظ سے فوج میں بے چینی نہ پیدا ہوجائے۔ دوسری طرف گورنر مکہ شریف ہاشمی کو بھی برطانیہ ترکوں کے خلاف جنگ کے لیے مالی امداد دے رہا تھا۔ چنانچہ اسے اس کی جانب سے بھی عدم تعاون کے خطرے کا ادراک ہوا۔ انہی دنوں برطانوی وزارتِ اطلاعات نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ جن دو کمانڈروں نے ترکی کے اس ’’سرینڈر‘‘ میں حصہ لیا تھا، وہ دراصل سابقہ ’’نائٹس‘‘ (knights) کی اولاد میں سے ہیں۔ یاد رہے کہ سابقہ دور میں صلیبی شعلے بھڑکانے میں نائیٹس سب سے آگے آگے تھے۔

یاد رہے کہ یہ فتح سیکولر سے زیادہ مذہبی تھی۔ (اسلام کے خلاف مغرب کی جتنی بھی جنگیں لڑی جاتی رہی ہیں یا اب لڑی جارہی ہیں، ان کے بارے میں کبھی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ لامذہبی تھیں یا اب وہ مذہبی جذبوں سے تائب ہوچکے ہیں)۔ سو سارا یورپ یروشلم کی اس فتح سے خوش تھا اور یہودیوں کو مکمل تعاون دے رہا تھا، تاکہ وہ یہاں ٹیمپل یا صومعہ بناسکیں۔ عیسائیوں کا منشا یہ تھا کہ نیا ٹیمپل بنے تب ہی ان کے نبی عیسیٰؑ کی جلد آمد ممکن ہو۔ برطانوی حکومت نے بھی ۱۹۱۷ء میں کنعان سرحدیں بائبل کی روشنی میں طے کردی تھیں۔

عرب ممالک میں اسرائیل کی قربتیں بہت آگے بڑھ گئی ہیں۔ سفارت خانے کھل گئے ہیں، اسرائیلی جہاز ان کے ہاں اترنے لگے ہیں، یہودیوں کے ’’کوشر‘‘ ریسٹورنٹس کھل گئے ہیں، سنیما اور اسٹیج کنسرٹس رواج پاگئے ہیں۔ ایک سعودی عرب ہی باقی رہ گیا ہے جو حرمین شریفین کی موجودگی کے باعث بہت کھل کر آگے بڑھنے سے رُکتا ہے۔ ورنہ عملاً تو وہ بھی اسرائیل کو قبول کرچکا ہے۔ یہ وہ حکومتیں ہیں جو اَب سے پچھتر سال پیچھے تک اسرائیل کو مسلسل غاصب اور جارح قرار دیتی تھیں۔ ان کے آبائی حکمرانوں کی تقریریں اسرائیل کے خلاف آج بھی موجود ہیں۔ مصر نے تما م عرب ممالک کی مخالفت کے باوجود ۱۹۷۷ء میں جب اسرائیل کو تسلیم کیاتھا تو عرب ممالک میں اتنی غیرت تھی کہ سب نے مل کر مصر کا بائیکاٹ کیا تھا اور وہ عرصۂ دراز تک عرب دنیا سے کٹا رہا تھا۔ یہی عرب ممالک تھے جہاں یاسر عرفات کی تنظیم اور حماس کے قائدین بھی اپنے دفاتر رکھا کرتے تھے۔ لیکن فضا اب الٹ کر یکسر اسرائیلیوں کے حق میں چلی گئی ہے۔ اسرائیل اب ان کا دوست قرار پایا ہے، جبکہ مزاحمتی تحریک حماس مجرم ٹھہری ہے۔ یہی عرب مسلم ممالک اب یہودیوں کی خاطر ’’مسلم صیہونیت‘‘ کو بڑھ چڑھ کر فروغ دیں گے، ویسے ہی جیسے پروٹسٹنٹ عیسائی فادرس، بڑھ چڑھ کر اپنے پیروکاروں کو اسرائیل اور مسمار شدہ ہیکل کی تعمیرنو کی خاطر مہم چلانے اور مالی تعاون کرنے پر اپنے چینلوں سے اکساتے رہتے اور امریکی حکومت کو اسرائیل کا مسلسل ساتھ دینے کے خطبے اور ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ کمال اتاترک کی مانند مسلم دنیا کو یہ ایک اور بڑا دھچکا ہے۔
 

Abid Raza
About the Author: Abid Raza Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.