دوا ساز کمپنی ’ایسٹرا زینیکا‘ کا اپنی کورونا ویکسین کے صحت پر ضمنی اثرات کا اعتراف: ’میرے شوہر کو دوبارہ چلنا، بات کرنا سیکھنا پڑا‘

Masud Ahmad, 79, receives an injection of the Oxford/AstraZeneca coronavirus vaccine at the Al Abbas Mosque, Birmingham, which was being used as a Covid vaccination centre

،تصویر کا ذریعہPress Association

،تصویر کا کیپشنکچھ افراد کا دعویٰ ہے کہ اس ویکسین کے ضمنی اثرات کے نتیجے میں انھوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے

دوا ساز کمپنی ’ایسٹرا زینیکا‘ نے عدالت میں جمع کروائی گئی اپنی دستاویزات میں پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ اس کی کورونا ویکسین کے ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔

یہ جیمی سکاٹ جیسے اُن افراد کے لیے بہت بڑی خبر ہے جنھیں ایسٹرا زینیکا کی کووڈ ویکسین کے ضمنی اثرات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

عدالت میں جیمی سکاٹ کی نمائندگی کرنے والی وکیل نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دوا ساز کمپنی کے اپنے قانونی موقف میں تبدیلی اہم بات ہے۔

ایسٹرا زینیکا کو اپنی کووڈ ویکسین کے ضمنی اثرات کے باعث کئی قانونی کیسز کا سامنا ہے۔

کچھ افراد کا دعویٰ ہے کہ اس ویکسین کے ضمنی اثرات کے نتیجے میں انھوں نے اپنے پیاروں کو کھویا۔ یہ ویکسین لگوانے والے کئی افراد ایسے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد انھیں شدید طبی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسٹرا زینیکا سمیت دیگر کووڈ ویکسینز نے کورونا کی عالمی وبا کے دور میں لاکھوں افراد کی جانیں بچائی تھیں۔

جیمی سکاٹ پہلے شخص تھے جنھوں نے ایسٹرا زینیکا کمپنی کے خلاف ہرجانے کا کیس دائر کیا تھا۔

اُن کا دعویٰ ہے اپریل 2021 میں ایسٹرا زینیکا کی ویکسین لگوانے کے بعد وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ان کے مطابق ویکسین کے نتیجے میں انھیں خون جمنے کی بیماری ہو گئی تھی جس سے اُن کے دماغ کو نقصان پہنچا۔

برطانیہ میں صارفین کے تحفظ کے لیے رائج قوانین کے تحت کی دائر کی جانے والی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ویکسین ’ناقص‘ تھی۔

A health worker prepares doses of the AstraZeneca vaccine against Covid-19 (coronavirus) today, in the block of Portela, one of the most traditional carnival groups in Rio de Janeiro, Brazil on 20 April 2021

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنایسٹرا زینیکا کو اپنی کووڈ ویکسین کو لے کر کئی قانونی کیسز کا سامنا ہے

ایسٹرا زینیکا ماضی میں اس نوعیت کے دعوؤں کو مسترد کرتی آئی ہے تاہم رواں برس فروری میں کمپنی نے برطانیہ کی ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی ایک قانونی دستاویز میں قبول کیا کہ اس کی کووڈ ویکسین ’بہت ہی کم کیسز‘ میں دماغ یا جسم کے دوسرے حصوں میں خون کے جمنے کے ساتھ ساتھ پلیٹلیٹس کی تعداد میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔

اس صورتحال کو ٹی ٹی ایس (TTS - Thrombosis with Thrombocytopenia Syndrome) کہا جاتا ہے اور اگر ایسا ویکسین لگوانے کے بعد ہو تو اس کو وی آئی ٹی ٹی (VITT - Vaccine-induced Immune Thrombosis with Thrombocytopenia) کہا جاتا ہے۔

متاثرین کے وکلا کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے نتیجے میں فالج، دماغ کو نقصان اور دل کے دورے کا خدشہ ہو سکتا ہے اور بعض کیسز میں متاثرہ اعضا کو کاٹنا بھی پڑ سکتا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اس کے نتائج جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

وکلا کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی ایس یا وی آئی ٹی ٹی کے نتائج ممکنہ طور پر جان لیوا ہیں اور ان میں فالج، دماغ کو نقصان، دل کے دورے، پلمونری ایمبولزم اور جسمانی اعضا کا کٹ جانا تک شامل ہیں۔

بہت سیے کیسز میں تھرومبوسس ان لوگوں کو بھی ہو سکتا ہے جنھیں ویکسین نہیں لگائی گئی۔

امریکن سوسائٹی آف ہیماتولوجی کے مطابق نایاب سنڈروم وی آئی ٹی ٹی صرف ویکسینیشن کے بعد تھرومبوسس والے لوگوں کو ہوتا ہے۔

ایسٹرا زینینکا نے عدالت میں جمع کروائے جواب میں کہا ہے کہ ’ٹی ٹی ایس ایک نایاب اور سنگین حالت ہے۔ یہ مختلف وجوہات (ضروری نہیں کہ ویکسین) سے شروع ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے اس کی کوئی قابل شناخت وجہ نہ ہو۔‘

 nurse from the Mexican Social Security Institute (IMSS) prepares a dose of AstraZeneca's Covid-19 vaccine during a campaign to reach out to people in low-income neighbourhoods, in Guadalajara, Jalisco state, Mexico, on 24 April 2022

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنایسٹرا زینیکا نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ کیسز میں ان کی ویکسین خون جمنے کی بیماری کا باعث بن سکتی ہے

مئی 2023 میں جیمی سکاٹ کے وکلا کی جانب سے بی بی سی کو بھیجے گئے جوابی خط میں کہا گیا تھا کہ ایسٹرا زینیکا نے انھیں بتایا ہے کہ وہ اس بات کو نہیں مانتے کہ عمومی طور پر ان کی ویکسین کے نتیجے میں ٹی ٹی ایس ہو سکتا ہے۔

لیکن ایسٹرا زینیکا نے فروری میں ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی قانونی دستاویز میں تسلیم کیا ہے کہ ’بہت کم کیسز میں ان کی ویکسین ٹی ٹی ایس کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکں تاحال اس کی وجوہات معلوم نہیں ہیں۔‘

کمپنی چاہتی ہے کہ ہر دعویدار یہ ثابت کرے کہ ان کو یہ بیماری ایسٹرا زینیکا کی ویکسین وجہ سے ہی ہوئی ہے نہ کہ ٹی ٹی ایس سے منسلک دیگر عوامل کی وجہ سے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ بیماری ایسٹرا زینیکا یا کسی بھی دوسری ویکسین کی غیر موجودگی میں بھی ہو سکتی ہے۔

An employee monitors the production line for Covishield, the local name for the Covid-19 vaccine developed by AstraZeneca and the University of Oxford, at the Serum Institute of India's Hadaspar plant in Pune, Maharashtra, India, on 22 January 2021

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنانڈیا کی ریاست مہاراشٹرمیں قائم سیرم انسٹیٹیوٹ نے 2021 میں ایسٹرا زینیکا سے ساتھ کووڈ ویکسین کی کم از کم ایک ارب خوراکیں بنانے کا معاہدہ کیا تھا

’اہم تبدیلی‘

قانونی فرم لی ڈے کی سارہ مور جیمی سکاٹ سمیت 51 دعویداروں کی عدالت نمائندگی کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ اس کیس میں ایسٹرا زینیکا کے مؤقف میں اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

’یہ [ویکسین] کے عممومی اثرات کے بارے میں اہم اعتراف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسٹرا زینیکا کی ویکسین ٹی ٹی ایس اور وی آئی ٹی ٹی کا سبب بن سکتی ہے۔‘

کمپنی کے اس اعتراف سے متاثرین کو ادائیگیوں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

منگل کے روز، ایسٹرا زینیکا نے بی بی سے بات کی تاہم انھوں نے سارہ مور کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کا جواب نہیں دیا۔

اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا: ’ہمیں ہر اس شخص سے ہمدردی ہے جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے یا جن کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مریضوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے اور ریگولیٹری حکام کی جانب سے تمام ادویات بشمول ویکسین کے محفوظ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے واضح اور سخت معیارات لاگو ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کلینیکل ٹرائلز اور اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسٹرا زینیکا کی ویکسین قابل قبول حد تک محفوظ ہے اور دنیا بھر کے ریگولیٹرز کی جانب سے مانا جاتا ہے کہ ویکسینیشن کے فوائد اس کے ممکنہ ضمنی اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔

Kenya starts administering AstraZeneca vaccines to health workers - a Kenyan healthcare worker gets vaccinated with an Oxford/AstraZeneca COVID-19 vaccine dose during the official launch of vaccinating health workers at the Kenyatta National Hospital (KNH) in Nairobi, Kenya, on 5 March 2021

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنایسٹرا زینیکا کی ویکسین کورونا کی وبا کے آغاز کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں دنیا بھر میں متعارف کروائی گئی تھی

’میڈیکل ایڈوائس میں تبدیلی‘

جون 2022 میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا تھا کہ ایسٹرا زینیکا کی ویکسین ’18 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے محفوظ اور مؤثر ہے۔‘

اس سے پہلے 7 اپریل 2021 کو ویکسینیشن اور امیونائزیشن کی مشترکہ کمیٹی نے 30 سال سے کم عمر کے بالغ افراد کو ایسٹرا زینیکا کے بجائے کوئی دوسری متبادل ویکسین لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ مشورہ انتہائی کم تعداد میں لوگوں میں خون کے جمنے کی اطلاعات کے بعد دیا گیا تھا۔

ایسٹرا زینیکا کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس مشورے کی عکاسی کرنے کے لیے اپنے ویکسین کے ڈبوں اور شیشیوں پر لیبل لگانے کی سفارش کی تھی۔

تقریبا ایک ماہ کے اندر ہی اس انتباہی پیغام میں مزید تبدیلی کر دی گئی۔ 7 مئی 2021 کو جاری کیے جانے والے پیغام میں کہا گیا کہ 40 سال سے کم عمر کے بالغ افراد کو یہ ویکسین نہ لگائی جائے۔

ایسٹرا زینیکا نے بی بی سی کو بتایا: ’آج تک عالمی سطح پر ایسٹرا زینیکا کی ویکسین کے خلاف 30 سے زائد دیوانی کیسز کو یا تو واپس لیا جا چکا ہے یا اس کے فیصلے ایسٹرا زینیکا کے حق میں آ چکے ہیں۔‘

A medical worker prepares a dose of Oxford/AstraZeneca COVID-19 vaccine at a vaccination centre in Antwerp, Belgium 18 March 2021.

،تصویر کا ذریعہReuters

’قابلِ قبول معاوضہ‘

ماضی میں جیمی کی اہلیہ کیٹ سکاٹ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے شوہر کو ماہرین سے بحالی کے 250 سیشنز کروانے پڑے تھے۔ ’انھیں دوبارہ چلنا، نگلنا، بات کرنا سیکھنا پڑا۔ [اانھیں] یادداشت کے مسائل بھی ہو گئے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جیمی کی حالت میں کافی بہتری آئی ہے تاہم انھیں اب ’اس نئے جیمی کے ساتھ‘ کی جینا سیکھنا ہو گا۔

جیمی کو اب یادداشت کے مسائل ہیں اور انھیں سوچنے سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھیں بات کرنے میں بھی مشکل ہوتی ہے، جبکہ شدید سر درد اور بینائی کے مسائل بھی درپیش ہیں۔

کیٹ کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت کو ویکسین کے نقصان کی ادائیگی کی اسکیم میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ ’یہ غیر موثر اور غیر منصفانہ ہے۔۔۔ اور [ہماری مانگ] منصفانہ معاوضہ ہے۔‘