اہل بیت سے محبت ( پہلا حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اہلِ بیت سے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہُ عنہم ہی مراد ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ بیت سے مراد پہلے نبیِ پاک ﷺ کی ازواج ہیں پھر اولاد، پھر داماد۔
قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے کہ
قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ-
(پ25، الشوری: 23)
ترجمہ کنز الایمان:
تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
قرآن مجید میں اہل بیت کا لفظ کئی جگہوں پر آیا ہے لفظ اہل کے معنی ہیں مستحق یا لائق جبکہ بیت کے معنی ہیں گھر یعنی اگر کوئی شخص کسی کے نسب ٫ دین ٫ پیشے ٫ شہر یا گھر میں شامل ہو تو اسے اس شخص کا اہل مانا جائے گا ۔
بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں، اہلِ بیت نسب، اہلِ بیت سکنیٰ اور اہلِ بیتِ ولادت۔ اہلِ بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتے دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتے دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اہلِ بیت سکنیٰ سے مراد وہ رشتے دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی۔۔ (عقائد ومسائل،ص86)
اہل بیت اطہار کی شان و عظمت پر ہمیں بے شمار احادیث پڑھنے کو ملتی ہیں حصول برکت کے لئے ایک حدیث نقل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔
(ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں ہم تعظیم کے طور پر لفظ سادات کا بھی استعمال کرتے ہیں سادات جمع ہے سید کی اور اصطلاح میں ہمارے ہاں یعنی برصغیر پاک و ہند میں جب بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے تو یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وبارک وسلم کی اولاد کے معنی میں بولا جاتا ہے اور اس سے مراد حضور پرنور سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ اولاد ہے تو حضرت بی بی صاحبہ سیدہ پاک حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپ کے وجود مبارک سے ظاہر ہوئی اور اس سے بھی خاص طور پر وہ اولاد جو سیدنا امام حسن اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد ہے ان پر یہ لفظ بولا جاتا ہے فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کے بارے میں اللہ تبارک و تعالی نے بیشمار ارشادات عالیہ بیان فرمائے اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی احادیث مبارکہ کا تو کوئی شمار ہی نہیں سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے جب اخری صاحبزادے وصال فرما گئے تو کفار نے سرکار کو طعنہ دیا کہ معاذ اللہ اب سرکار کا نسب مبارک اگے نہیں بڑھے گا اللہ تبارک و تعالی نے جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملاحظہ کیا مشاہدہ فرمایا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اقدس پر رنج ہوا ہے اس جملے کا تو رب العالمین نے تسلی دینے کے لیے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ
ترجمعہ :
اے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اپ کو خیر کثیر عطا فرمایا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس ایت مبارکہ کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ یہاں الکوثر سے مراد ایک تفسیر حضور پرنور سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اولاد کی کثرت ہے حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس وقت ہم سرکار کی اولاد کو قریہ قریہ نگر نگر دیکھتے ہیں تو واقعی ہمیں نظر اتا ہے کہ اولاد کثیر ہے واہ یہ واقعی الکوثر کا مصداق ہے اور یہاں تک جملہ اپ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے جس وقت اقا دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کو ختم کرنے کا ارادہ کیا جیسے یزید وغیرہ نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی تواسی سورہ مبارکہ سے تیسری ایت میں رب العالمین نے جواب کے طور پر کیا ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ
ترجمعہ :
اے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپ کا دشمن ہوگا وہ بے نسلا رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کے مطابق اس کی نسل اگے نہیں بڑھے گی امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دیکھو اللہ رب العالمین نے کیسے اپنا وعدہ پورا فرمایا کہ فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے صرف ایک شہزادہ یعنی حضرت سیدنا امام سجاد سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ میدان کربلا سے اپ حیات واپس ائے ہیں باقی شہید ہوئے لیکن ہم دیکھتے ہیں اس کائنات کا کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں اللہ رب العالمین نے سرکار کی اولاد جو ہے وہ ظاہر نہ فرمائی ہو اور تو اور یہ بھی دیکھئے کہ جس طرح حضرت سیدنا امام سجاد سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ حسینی سادات میں سے اکیلے ائے ہیں ایسے ہی حسنی سادات کا بھی ایک شہزادہ ایسے ہی اکیلا وہاں سے ایا ہے وہ حضرت سیدنا امام حسن المثنی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اپ میدان کربلا میں ساتھ ہیں وہاں زخمی ہوئے ہیں اور زخمی حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ منتقل کیا گیا کم و بیش تین ماہ آپ کی تیمارداری کی گئی اور جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طبیعت میں افاقہ ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی بیڑیاں ڈال کر زنجیروں میں جکڑ کر ملک شام لے جایا گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے آج کے معاشرے میں نہ جانے کیوں کچھ لوگ حسنی سادات کے شہزادے جو امام عالی مقام کے ہم قدم ہیں ساتھ ساتھ ہیں ان کے تذکرے میں اپنے دل کے چھوٹے ہونے کا مظاہرہ کرجاتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی کے نزدیک جو مقام و مرتبہ حسینی سادات کا ہے وہ ہی مقام وہ ہی مرتبہ حسنی سادات کا ہے کیوں کہ وہ بھی تو اولاد رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ہی ہیں اور وہ بھی کوثر کے مصداق ہی ہیں لہذہ جہاں ہم حسینی سادات کے شہزادے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر کرتے ہیں اسی طرح حضرت سیدنا امام حسن المثنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ذکر خیر کثرت کے ساتھ کرتے رہنا چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جب ہم لفظ "اہل بیت " کا استعمال کرتے ہیں تو اس کے معنی صرف آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی شہزادی خاتون جنت بیبی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ٫ حضرت مولا مشکل کشاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ٫ یا شہزادے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہی نہیں ہیں بلکہ سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ الاحزاب کی آیت 27 سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی شان و عظمت کا بیان بڑی تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے اور یہ شان وعظمت سورہ الاحزاب کی آیت 34 تک جاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں میں ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا کہ آج ہم ایک انتہائی نازک وقت سے گزر رہے ہیں میں یہ بات مذہبی اعتبار سے کررہا ہوں کہ آج اس امت کو کیا ہوگیا ہے کہ جس امت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ہر وقت یہ ہی دعا مانگا کرتے تھے کہ
رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِی
یعنی پَرْوَرْدگار! میری اُمَّت کو بخش دے۔
(فتاوی رضویہ،۳۰/۷۱۲ملخصا)
اور ہم ہیں کہ ہمارے درمیان جو صحیح العقیدہ سادات ہیں ان کو اور جو سادات نہیں ہیں ان کو آمنے سامنے کھڑا کردیا ہے جبکہ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی ہمیں یہ بات ماننا ہوگی کہ ابتدائے زمانہ سے لیکر رہتی قیامت تک بادشاہت تو سادات کرام کو ہی حاصل ہے سرداری تو ہے ہی ان کے لئے باقی امت تو خادم ہے ان کی سادات تو ہمارے لئے روح ہیں چمک دمک ہیں ان کے دم سے ہی ہم لوگ آباد ہیں لیکن ہمارے درمیان کئی لوگ ایسے موجود ہیں جو اپنے آپ کو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم تو اہل بیت کو ماننے والے ہیں سادات کرام کے چاہنے والے ہیں لیکن جب بھی وہ بات کرتے ہیں تو امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے گھرانے کا تو ذکر کرتے ہیں مگر حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی اولاد کا ذکر کرنے میں ان کی زبان درد کرنے لگتی ہے جبکہ یہ بات ہر ذی شعور اہل ایمان مسلمان جانتا ہے کہ جس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی اولاد اہل بیت میں سے ہیں بالکل اسی طرح حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد بھی سادات کرام میں شامل ہیں تو پھر ہم ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں عام طور پر کئی کتابوں میں ہمیں 12 امام کا تذکرہ ملتا ہے یہ بارہ امام تو ہمارے سروں کا تاج ہیں ان کو نہ ماننے والے کے ایمان پر بھی ہمیں شک ہے وہ تو کامل مومن ہی نہیں ان کی عبادات کی قبولیت پر بھی شک ہے لیکن صرف یہ بارہ امام ہی اہل بیت میں نہیں آتے بلکہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی اولاد بھی امام ہیں شہنشاہ بغداد حضور غوث پاک علیہ رحمہ بھی تو امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد سے ہیں حضرت داتا گنج بخش ہجویری بھی امام ہیں تو پھر انہیں کیوں نہیں مانا جاتا بلکہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے گھرانے کا تو بچہ بچہ نور ہے اہل بیت ہے امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ رحمہ نے کیا خوب ارشاد فرمایا کہ
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
یعنی بات یہاں تک نہیں بلکہ سرکار کے گھرانے کا تو بچہ بچہ نور والا ہے اہل بیت ہے سادات کرام کا درجہ رکھتا ہے جناب احمد رضا امجدی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ " خدا قسم اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد پھلے پھولے اپنے علم و عمل میں آگے سے آگے بڑھیں وہ ہر آفت و بلیات سے محفوظ رہیں انہیں کبھی کوئی تکلیف نہ ہو کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے تو اعلی حضرت علیہ رحمہ کے اس شعر کو بطور وظیفہ بنالے چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے یہ شعر پڑھتا رہے پھر دیکھے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کیسا کرم ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ تم میرے حبیب کے اولاد پاک کا ذکر کرتے ہو تو میں تمہیں وہ مقام دوں گا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے اور سرکار علیہ وآلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم نے میری اولاد کا ذکر خیر کیا بس تمہاری اولاد پھلے پھولے گی زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی حاصل کرے گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ذرا سوچئیے اہل بیت اطہار کا کوئی فرد ہو ازواج مطہرات میں سے کوئی ہو صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کوئی ہو یا قیامت تک آنے والا کوئی ایک مومن ہم ان تمام ہستیوں کو اگر مانتے ہیں ان کی شان و عظمت کے قائل ہیں تو صرف آقا ئے نامدار صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی وجہ سے یعنی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو مانتا ہے وہ مومن ہے لیکن جو خدا کو تو مانے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو نہ مانے وہ مومن نہیں مباہد ہے ایمان کا تاج اللہ تعالیٰ صرف اسی کے سر سجائے گا جو حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کو مانے گا وہ ہی مومن ہوگا جس کی سب سے بڑی اور واضح دلیل ابلیس ہے جو خدا کو تو مانتا تھا لیکن اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا منکر تھا یعنی زمین کا کوئی حصہ یا ٹکڑا ایسا نہیں جہاں ابلیس نے سجدہ نہ کیا ہو لیکن وہ لاعنتی اس لئے ہوا کہ اس کے پاس معبود تو تھا مگر محبوب نہ تھا
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بات ہمیشہ یاد رکھئے جس کے پاس معبود بھی ہو اور محبوب بھی ہو صحیح منزل تک وہ ہی پہنچتا ہے گویا ایک عام اہل ایمان مسلمان کی شان و عظمت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے نسبت کی وجہ سے ہے یعنی حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم سے جس نے اپنی نسبت جوڑ لی وہ مومن ہےاس کی نیکیاں بھی قبول اس کا ہر عمل قبول تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں توہمیں پتہ چلتا ہے کہ کئی نامور صحابہ کرام علیہم الرضوان اور کئی تابعی بزرگ ایسے گزرے ہیں جن کو اگر کوئی مقام اور عزت حاصل ہوئی تو وہ سب حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے تھی یعنی جس نے سرکار علیہ وآلیہ وسلم سے اپنی نسبت قائم رکھی نسبت کی لاج رکھی آپ علیہ وآلیہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا رہا تو حقیقی مومن کا تاج صرف اسے ہی نصیب ہوگا کیوں کہ اللہ رب العزت نے تمام عزتوں اور بلندیوں کا محور صرف اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی ذات اقدس کو بنایا ہے ۔ایک حدیث کے مطابق
"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘
(اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام اہل سنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا فاضل بریلوی نے لکھا ہے کہ کئی لوگوں نے کچھ اس طرح لکھا کہ بڑے خوش نصیب تھے سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جیسے صحابہ ملے اور بڑے خوش نصیب تھے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم جو انہیں حسنین کریمین جیسے نواسے ملے تو امام اہل سنت نے فرمایا کہ لکھنے والوں نے جو لکھاوہ لکھا لیکن اصل یہ ہے کہ بڑے خوش نصیب تھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما جن کو سرکار علیہ وآلیہ وسلم جیسے آقا ملے اور بڑے خوش نصیب تھے حسنین کریمین جن کو سرکار علیہ وآلیہ وسلم جیسے نانا ملے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان معاملات سے یہ واضح ہوا کہ تخلیق وجہہ الکائنات اللہ تبارک وتعالی نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کو کیوں کہا اور ایک اہل ایمان مسلمان کے مومن ہونے کو حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم سے محبت سے مشروط کیوں رکھا اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ النساء کی آیت 65 میں کیا ارشاد کیا کہ
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
ترجمعہ کنز العرفان :
تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اہل بیت سے محبت کے عنوان سے لکھے جانے والے اس مضمون کو اس ایک تحریر میں بیان کرنا ممکن نہیں لہذہ میں اس کے دوسرے حصے کے ساتھ اپنی تحریر لیکر حاضر خدمت رہوں گا اس تحریر کے آخر میں میں صرف یہ ہی کہوں گا کہ بروز محشر نجات کا ذریعہ یہ ہی ہے کہ اللہ رب العزت کے قرب اس کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم سے عشق اور ان کے اہل بیت سے محبت کو اپنا لیں ان شاءاللہ ہمارا بیڑا پار ہو جائے گا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم سے دلی عشق اور ان کے اہل بیت سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر ہو آمین آمین بجاء النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 129 Articles with 86315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.