“ حضرت سلیمانؑ اپنے والد داودؑ کے بعد بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے“

حضرت سلیمانؑ اپنے والد داودؑ کے بعد بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے اور انہیں نبوت عطاء ہوئی

آپ نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ آپ کو ایسی حکومت عطا کی جائے جو آج سے پہلے کسی کو نہ ملی ہو اور نہ آئندہ ملے اللہ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور اللہ نے آپ کو ہوا ، جنات ، پرندوں اور جانوروں تک پہ حکمرانی عطاء کی ۔ آپ پرندوں اور جانوروں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے.

جنات آپ کے حکم سے عمارات بناتے ، سمندر سے موتی نکال کر لاتے اور ہر وقت دست بستہ آپ کے دربار میں کھڑے رہتے ۔ چونکہ ہوا بھی آپ کے تابع تھی تو آپ کا لکڑی سے بنا ایک بہت بڑا تخت ہوا میں اڑتا رہتا اور صبح سے شام تک ایک مہینے کی مسافت طے کرلیتا تھا .

حضرت سلیمان ؑنے فلسطین کے شہر یروشلم کے مشرقی حصے میں ایک عمارت تعمیر کی جسے تاریخ میں ہیکل سلیمانی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس عمارت کا بنیادی مقصد عبادت اور تابوت سکینہ کے لئے ایک محفوظ جگہ مہیاء کرنا تھا.

تابوت سکینہ نامی یہ مقدس صندوق جو حضرت آدم ؑکو دیا گیا اور ان سے ہوتا ہوا حضرت سلیمانؑ تک پہنچا ، اس میں مختلف انبیاء کرام کے تبرکات ، حضرت موسیؑ کا عصاء اور تورات کا اصلی نسخہ رکھا تھا .

یہ عمارت حضرت سلیمان ؑنے جنات سے تعمیر کرائی ، جو دور دراز پہاڑوں سے بڑی بڑی چٹانیں اٹھا کر لائے اور پھر گہرے سمندروں سے موتی نکال کر اس کی تزئین و آرائش کی.

چونکہ یہ عمارت بنی اسرائیل کے نبی نے تعمیر کی تھی اور اس کے اندر تابوت سکینہ رکھا تھا یہی وجہ تھی کہ اسرائیلی قوم کے نزدیک یہ ایک متبرک ترین عبادت گاہ کا درجہ حاصل کرگئی لیکن جب یہودیوں نے حسب عادت دوسری قوموں کو تنگ کرنا شروع کیا تو بابل ( عراق )کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم پر چڑھائی کرکے نہ فقط شہر کی اینٹ سے اینٹ سے بجادی بلکہ ہزاروں یہودیوں کو تہہ و تیغ کرنے کے ساتھ ساتھ ہیکل سلیمانی کو تباہ کرکے تابوت سکینہ اپنے ساتھ بابل لے گیا ۔ یاد رہے یہ ھیکل دو بار تعمیر ہوا اور دو بار ہی شاہ بابل بخت نصر اور پھر رومیوں کے ہاتھوں تباہ ہوا ۔ یہ سب واقعات قبل از اسلام کے ہیں.

تاریخ کی گہرائی میں جائیں تو علم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت سلیمانؑ کے جد امجد حضرت یعقوبؑ نے اس جگہ مسجد تعمیر کرکے اللہ کی عبادت شروع کی تھی اور اس کے بعد حضرت سلیمان ؑنے اسے دوبارہ تعمیر کرایا ۔ یہودی اسے ہیکل سلیمانی تو ہم مسلمان ، مسجد اقصی کہتے ہیں کیونکہ واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مناسبت سے سورة اسراء میں اسے یہ نام " مسجد اقصی " دیا گیا ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ صبا بلقیس کی
۔۔
ملک یمن کے پاس ایک قبیلہ آباد تھا جس کا نام سبا تھا یہاں کے لوگ سورج کی پوجا کرتے تھے اور ان کی حکمران ایک نہایت خوبصورت خوبرو ملکہ سبا بلقیس تھی ۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ ایک مہم پر تھے انہوں نے دربار لگایا سب سپہ سالاروں سے رپورٹ لینے کے لئیے ۔ جن و انس ، جانور اور پرندے سب کے سب حاضر ہوئے مگر ان کا چہیتا پرندہ ہد ہد غائب تھا ۔
آپ نے پوچھا ہد ہد کہاں ہے ؟ پر وہ نظر نہ آیا تو سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ۔
" ایسے موقعے پر ہدہد کا غائب ہونا بڑا جرم ہے اگر وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ پیش نہ کرسکا تو اسے ذبح کردیا جائیگا ۔"
ابھی یہ گفتگو ہورہی تھی کہ ہدہد حاضر ہوگیا ۔
"تم کہاں تھے ۔؟ " پوچھا گیا
ہدہد نے بڑے احترام سے جواب دیا۔ "اے اللہ کے پیغمبر میں اڑتے اڑتے جنوب میں ایک ایسے ملک پہنچ گیا جہاں لوگ شرک میں مبتلاء دیکھے ۔ وہ سورج کی پوجا کرتے ہیں ۔ ان کی ملکہ بڑی شان و شوکت والی اور ایک عظیم الشان تخت کی مالکہ ہے اور وہ بھی سورج کی پوجا کرتی ہے وہ اپنے بہت بڑے تخت پر بیٹھ کر حکومت کرتی ہے ۔ اس کے تخت میں قیمتی ہیرے ، جواہرات اور لعل و زمرد جڑے ہوئے ہیں ۔۔۔"

قوم یمن پر ملکہ سبا کی حکومت تھی اور جنوب عرب کے کئی علاقے بھی ان کی حکمرانی میں تھے

" اگر تمہاری بات سچ ہے تو میرا خط اس ملکہ تک پہنچاؤ کہ وہ اور ان کی قوم شرک سے باز آجائیں اور دین کی راہ اپنائیں ، خط پہنچانے کے بعد وہاں بیٹھ کر سنو وہ کیا ردعمل اختیار کرتے ہیں اور پھر آکر مجھے خبر دو۔ " حضرت سلیمان نے ہدہد کو حکم دیا اور خط لکھوایا ۔

حضرت سلیمان ؑنے ملکہ بلقیس کو مخاطب کرکے لکھا۔

“ بسم اللہ الرحمن الرحیم “

یہ مکتوب سلیمان کی طرف سے ہے اللہ رحمان رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے مضمون یہ ہے کہ میرے مقابلے پر سرکشی نہ کرو اور مسلم و مطیع بن کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ ۔۔" (سورت نمل )

یہ خط دراصل ملکہ سبا اور اس کی قوم کی طرف دعوت اسلام تھی ۔ انہیں شرک سے ہٹاکر توحید کی طرف لانا تھا ۔
ہد ہد نے خط لے جاکر ملکہ بلقیس کی گود میں گرادیا اس وقت گرایا جب وہ سورج پرستی کے لئیے معبد جارہی تھی ۔
ملکہ حضرت سلیمان کا خط پڑھ کر حیران رہ گئی اور اس نے دربار بلوایا ۔

ملکہ کے دربار میں اس وقت تین سو کے قریب سردار بیٹھے تھے ۔ انہوں نے جب خط کا متن سنا تو تیش میں آگئے اور کہا کہ یہ ہماری توہین ہے ہمیں اس کا سخت جواب دینا چاہئیے مگر ملکہ بہت سمجھدار تھی اس نے انہیں سمجھایا کہ خط سے پتہ چل رہا ہے یہ کوئی عام شخص نہیں خدا کا پیغمبر ہے ، ہمیں حکمت سے کام لیکر اسے آزمانا چاہئیے اگر یہ واقعی اللہ کے نبی ہوئے تو تحائف قبول نہیں کرینگے اور پھر ہم ایمان لے آئینگے ۔
کافی بحث کے بعد یہ طے پایا کہ حضرت سلیمان علیہ سلام کی خدمت میں پہلے تحائف بھیجے جائیں اور انتظار کیا جائے کہ ہمارے ایلچی (وفد) کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں ۔
ہد ہد یہ ساری گفتگو سن رہا تھا اس نے آکر حضرت سلیمان کو ساری بات بتادی۔
دوسری جانب ملکہ بلقیس نے ایک وفد تیار کیا جس کے ہاتھ نہایت قیمتی تحفے تحائف ، غلام اور لونڈیاں حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں روانہ کئیے گئے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس وفد کا ایسا شاندار استقبال کیا کہ وہ انگشت بدنداں رہ گئے ۔ یاد رہے حضرت سلیمان ؑاس وقت دنیاء میں سب سے امیرترین شخص تھے ۔
انہوں نے وفد کو بتایا کہ مجھے خدا نے وہ کچھ دیا ہے جس کا ملکہ بلقیس تصور تک نہیں کرسکتی اس لئے یہ سب تحائف واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہہ دو کہ اگر اسلام قبول نہیں ہے تو ہمارے عظیم الشان لشکر کا انتظار کرے جس کا مقابلہ کرنے کی ہمت تمہاری قوم میں نہیں ہے ۔
وفد جب واپس چلاگیا تو حضرت سلیمان ؑنے اپنے وزیروں اور جنات کو بلاکر کہا ، تم میں سے کون ہے جو ملکہ بلقیس کا تخت اس کے یہاں پہنچنے سے پہلے لے آئے ۔
ملکہ سبا کا تخت اسی گز لمبا اور چالیس گز چوڑا تھا سونے چاندی اور قیمتی جواہرات سے مرصع تھا اسے اٹھانا تو دور ہلانا بھی آسان نہیں تھا ۔

ایک جن نے کہا کہ حضور میں دن ڈھلنے سے پہلے لاسکتا ہوں ۔
حضرت سلیمان ؑ کے ایک وزیر جن کا نام آصف بن برخیاہ تھا وہ اسم اعظم جانتے تھے ولی اللہ تھے انہوں نے کہا کہ میں پلک جھپکبے سے پہلے لاسکتا ہوں میرے پاس صحیفوں کا علم ہے.

حضرت سلیمان ؑنے آصف بن برخیاہ کو حکم دیا اور ملکہ کا تخت لمحوں میں حضرت سلیمان علیہ سلام کے سامنے ان کی کرسی کے برابر میں موجود تھا.

حضرت سلیمان ؑنے تخت حاضر ہوجانے کے بعد اس پر لگے ہیرے جواھرات اور دیگر قیمتی اشیاء کو ہٹانے کا حکم دیا تاکہ اس کی شناخت باقی نہ رہے اور ملکہ کا امتحان لیا جاسکے ۔

جب ملکہ حضرت سلیمان کی سلطنت میں حاضر ہوئی تو اس کا پرتپاک استقبال ہوا ۔ اسے ایک ایسے محل میں لیجایا گیا جس کا فرش ایک مخصوص شیشے کا بنا ہوا تھا جسے دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ شاید پانی کا چھوٹا سا تالاب ہے لھذا جب ملکہ اس محل میں داخل ہوئی تو فریب نظر کا شکار ہوکر اپنے لمبے شاہی لباس کو دونوں ہاتھوں سے اوپر کر لیا تاکہ بھیگ نہ جائے لیکن فرش پر قدم رکھنے کے بعد ، ملکہ کو یہ جان کر حیرت اور شرمساری محسوس ہوئی کہ یہ پانی نہیں بلکہ فرش پہ لگے شیشے کا عکس ہے.

ملکہ بلقیس کو جب اس کا تخت دکھایا گیا جس کی شکل بہ ظاہر تبدیل کردی گئی تھی مگر وہ اپنی ذہانت سے تخت کو پہچان گئی اور حیران رہ گئی کہ وہ اپنا تخت سخت حفاظتی پہرے میں چھوڑ کر آئی تھی ۔
اسے اس بات کا یقین ہوگیا کہ جو شخص اس کے اتنے بھاری بھرکم تخت کو اتنی کم مدت میں یمن سے پندرہ سو میل دور یروشلم کے شہر لاسکتا ہے وہ یقینا خدا کا پیغمبر ہے ۔

یہ سب معجزات دیکھ کر وہ اور اس کے تمام لشکری حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور کفر و شرک کی دنیاء چھوڑ کر توحید کا پرچم تھاما اور یمن اور جنوبی عرب میں اسلام پھیل گیا.

تاریخ میں لکھا ہے کہ بلقیس نے حضرت سلیمان ؑسے شادی کرکے باقی زندگی ان کے حرم میں گزاری ۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.