نامعلوم الفاظ پر تخلیق کردہ کہانی

شام جس طرح اپنے اندر سینکڑوں کہانیاں لپیٹے ہوۓ لاتی ہے اُسی طرح کچھ کہانیوں کا وجود ہو یا نہ ہو، وہ اپنے اندر ایک بھنور رکھتی ہیں جو انسان کی سوچ کو ہلا کر اُسکو آسمان کے جہانوں سے آشنا کر دے__ یوں ہی شاکرہ اپنے خیالوں میں مصروف تھی کہ ایک بزرگ خاتون اپنے آنچل میں جہاں کا دکھ لیے اپنی غمگین آنکھوں سے اپنے زندگی کے تجربہ کو بہا رہی تھی! اُنکے لفظوں میں ایسی طاقت تھی جو سخت تو تھے لیکن ! بہت شائستگی سے بولے جارہے تھے۔۔۔
جن کی آہ صرف وہ لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو ہاۓ کے اِرتقا سے آشنا ہوں !

الفاظ کچھ اس طرح سے تھے:

"پیسہ تو ------- کے پاس بھی ہوتا ہے"

شاکرہ کو اُنکی کہانی کا پتہ نہیں تھا__
پر جوں ہی اُنکے عمر رسیدہ لبوں سے یہ الفاظ نکلے اُسکی روح ہل گئ !
تبھی اس نے دل کے تہ خانے میں دَھک دَھک سنی جو شاید اُسکے دماغ کے neurons تک جا چکی تھی اور پھر اسکا گزر سوچ کی اس سیڑھی سے ہوا جس پر سے گزرنے کے لیے شائد یہ stimulation ضروری تھی ، یہ جملہ جو اُسکے اندر کے جہاں کی نبض پر ہتھکنڈے لگاۓ بیٹھے تھے اپنی اصل کہانی کے پہلو سے نا آشنا تھے ، اُسکے دماغ کا بلب اندر کی تاریکی میں روشنی کیے بغیر رہ نہ سکا____
سوچنے لگا اِن نامعلوم الفاظ کے پیچھے آخر کیا کہانی چھپی ہے !
اس نے سوچنا شروع کر دیا ____آخر وہ بزرگ خاتون جو بذات ِخود ایک امیر خاتون ہے وہ ایسا کیوں کہ رہی ہے،
اُسکے نا معلوم الفاظ نے اُسکی سوچ کے اندر ایک کہانی تخلیق کر دی!
سوچ کا آغاز نامعلوم الفاظ سے گزرتا ہوں کہانی کا رُخ اختیار کر گیا !
بزرگ خاتون کی کہانی تو اک الگ داستان اپنے اندرد سماۓ ہوۓ تھی پر اُس جملے نے ایک ایسی سوچ اُسکے اندر پیدا کر دی جو اُسکے پیچھلے تمام سوالوں کا جواب اپنے اندر لیے ہوۓ تھی " _

شاکرہ خود سے مخاطب ہے:

پیسہ ایک ایسی شے ہے جو انسان کو اندھا کر دیتا ہے اور معاشرے کو پوجاری بنا دیتا ہے ! آج کل لوگ کفر کُھلم کُھلا کر ہے ہیں مگر انکی زات تک اس انکار سے آشنا نہیں____
آپ کا رزق آپکی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے آپ کو وہ عطا ہونا ہی ہونا ہے ! باقی کوشش ہی انسان کو عرفان کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے _
اور عرفان کیا ہے!!!

اس کے حقیقی لبادے کو اوڑھنے کے لیے حلال سوچ کی اشد ضرورت ہے!

انسان اگر سب چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جاۓ بغیر کوشش کیے تو کچھ نہیں ہوسکتا جیسا کہ Alchemist میں بھی Santiago کو اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے چلنا پڑا تھا___
بلکل اسی طرح
حلال راستہ ضروری ہے حرام پیسہ حرام تاثرات ظاہر کر ہی دیتا ہے !

اُسکے والد صاحب اور اُسکے درمیان گفتگو شروع ہو گئ ___ وہ بات آجکل معاشرے کی سوچ پر کر ہے تھے ____ "شادی " پر تبصرہ چل رہا تھا اور بات پیسہ سے شروع ہوئ اس نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ ہمارا معاشرہ پیسہ کے پیچھے کیوں بھاگ رہا ہے؟؟؟؟؟
پیسہ priority جبکہ character کیوں غیر ضروری ہو گیا ہے!
_____یعنی شادی کرنی ہو تب بھی معزز گھرانے یعنی پیسہ والوں کو فوقیت حاصل ہے اس نے حیرانی سے پوچھا__
پیارے ابا جان ! اگر کردار ہی مر گیا ہو تو پیسے کا اچار ڈالنا ہے وہ پیسہ وبال بن جاتا ہے جسکی بنیاد ایسے پیسہ کی ہو جو کالا ہے!

والد صاحب اُسکی طرف مسکراتے ہوۓ دیکھ رہے تھے والد صاحب ہی ایسے شخص تھے جن سے وہ ہر بات کر بھی لیتی اور وہ اُسکی ہر بات غور کرتے اور فہم سے سنتے بھی تھے اور اُسکی سوچ کو اور اُسے سمجھتے تھے!
اب اُسکا اتنا کہنا تھا اور اگلی سوچ بھی اس نے کہہ ڈالی ____ہاں یہ سچ بات ہے کہ مانگنا کسی کو اچھا نہی لگتا ____ ہاں پیسا ضروری ہے لیکن _حلال !!

لیکن انسان کا آخر کردار priority ہے اور یہی دولت پر بھاری ہے !اگر کردار میں تاثیر نہی تو پیسہ جاۓ _بھار میں!

اتنا کہنا تھا کہ والد صاحب نے شاکرہ سے کہا :

ہاں بیٹا سہی کہ رہی ہو! میں نے بھی زمانہ دیکھا ہے اور ہر انسان کہ ساتھ بیٹھا ہوں اور میں نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا ہے جو ہر وقت کال پر ہی لگے رہتے ہیں اور لڑکیوں کی باتیں سرِ عام بتاتے پھرتے ہیں ۔۔۔۔اِس بات کو تو چھوڑو شادی شدہ بھی اِسی چکڑ میں ہیں!

اس نے کہا ابا جان دیکھ لیں اس زمانے کا حال ! کردار ہی انسان کی اوقات بتاتا ہے ۔۔جہاں کالا پیسہ بڑھ رہا ہے وہاں انسان کا کردار بھی گندگی کی طرف لپک رہا ہے انسان حرام شے میں خوشی ڈھونڈ رہا ہے حلانکہ خوشی اور برکت___ حلال میں ہے !

حلال شے اپنے میں خودی رکھتی ہے _جبکہ حرام شکلیں بگاڑ دیتی ہے !

اس معاشرے میں ایک وبا؛ غلط گمانی، بے حسی اور خود غرضی بھی ہے! جو رشتوں میں فتور ڈالنے کے لیے کافی ہے !

جس طرح تخیل اور غوروفکر انسان کو کردار کی بلندی تک لے جاتا ہے اُسی طرح غلط سوچنا اور غلط ترجمانی اور خود غرضی انسان کو حلاق کر دیتی ہے !
اسکے والد صاحب کہتے ہیں:

انسان کا تعلق ﷲ کی مخلوق سے بھی ہے اگر وہ منافق ہے ، بد نیت ہے تو اُسکا پھل اسے جلا ہوا ہی ملتا ہے اور اگر وہ نیت والا انسان ہے تو جو
ہوجاۓ___ اسکا بال بھی باقا نہیں ہو سکتا!

یہاں لوگ اپنے بہن بھایئوں کے کرداروں پر تو کوئ حرف نہی آنے دیتے__ وہیں وہی لوگ دوسروں کے قصے سنانے سے پرہیز نہی کرتے۔۔۔
اپنے آنسوں اُنکو بہت قیمتی ہیں __ مگر!!!! دوسروں کی ہاۓ بھی ان کی سماعت تک پَر نہی مارتی___

جس کا جہاں بس چلتا ہے کہانیاں بنا کر دوسروں کو پہنچا دیتا ہے ہاں کچھ لوگ اچھے بھی ہیں جو دوسروں کا بھی احساس کرتے ہیں لیکن بہت گندگی پھیل رہی ہے جس پر پردہ تو ضرور ڈالا جارہا ہے مگر حل نہیں نکل رہا !
جس میں اہم کرادر ہماری معاشرے کی ان عورتوں کا ہے جن پر معاشرے کے اثرات مرتکب ہوۓ اور انہوں نے وقت کی فراغت کا استعمال فساد کے جھولے میں کیا اور دوسروں پر الزام تراشی میں __
معاشرہ خیر نہیں شر ڈھونڈتا ہے اور بنا تحقیق کے خود ہی سے کہانی کا انجام بھی اور آغاز بھی سنا ڈالنے کا حامل ہے___

کسی کی عزت کا معاشرے کی عزت سے کوئ لینا دینا نہیں ___ پر ہاں اپنی عزتوں کا خیال اور فتوی صادر کرنے میں ہم بہت ترقی کر گۓ___ لیکن ابھی بھی سوچ کوڑے کے ڈبہ میں پڑی ہے!!!!!!!!


(شاکرہ اور اسکے والد___ آسماں کی طرف دیکھتے ہیں اور خاموشی چاہ جاتی ہے)___

زہن کے کیڑوں نے بُن رکھیں ہیں غلاظت کے کپڑے
مکڑیوں لاؤ شفاف جالے یعنی سفید دھاگے !۱

ہر طرف ہے پھیالا گمان کا اک نیا اندازہ
لحاظ کیسا ؟ لاؤ شیشہ معاشرہ ہوا ہے کالا___

Sadia Ijaz Hussain
About the Author: Sadia Ijaz Hussain Read More Articles by Sadia Ijaz Hussain: 21 Articles with 24869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.