اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینی قیدیوں سے بدسلوکی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا سلسلہ جاری

بی بی سی نے حال ہی میں 45 تصاویر اور ویڈیوز کا تجزیہ کیا، جن میں اسرائیلی پرچم میں لپٹے ہوئے فلسطینی قیدیوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی فوجی مقبوضہ غربِ اردن میں زیرِ حراست فلسطینیوں کی ویڈیوز آن لائن شیئر کر رہے ہیں جو کہ قانونی ماہرین کے مطابق جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔

اس سے قبل بھی بی بی سی نے اسرائیلی حراست میں موجود فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی نشاندہی کی تھی جس کے بعد اسرائیلی ڈیفینس فورس نے اس پر کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔

بی بی سی نے حال ہی میں 45 تصاویر اور ویڈیوز کا تجزیہ کیا، جن میں اسرائیلی پرچم میں لپٹے ہوئے فلسطینی قیدیوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی ڈیفینس فورسز (آئی ڈی ایف) نے کہا کہ ’ناقابل قبول رویوں‘ کے مرتکب فوجیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے اور انھیں معطل بھی کیا گیا تاہم انھوں نے کسی بھی انفرادی واقعے یا فوجی پر تبصرہ نہیں کیا۔

بین الاقوامی قانون زیر حراست افراد کو غیر ضروری تذلیل کا نشانہ بنانے سے روکتا ہے۔ انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران لی گئی ویڈیوز اور تصاویر کو آن لائن شیئر کرنے کا مقصد زیرِ حراست افراد کی تذلیل ہے۔

رواں سال فروری کے مہینے میں بھی بی بی سی ویریفائی نے 7 اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ کے دوران سوشل میڈیا پر آئی ڈی ایف اہلکاروں کی جانب سے تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی تھی۔

بی بی سی کی پچھلی تحقیق کےدوران بھی سامنے آیا تھا کہ غربِ اردن میں اسی عرصے کے دوران تشدد میں اضافہ دیکھا گیا۔

اوری گیواتی ایک سابق اسرائیلی فوجی ہیں اور اب ’بریکنگ دی سائلنس‘ نامی تنظیم کے ترجمان ہیں۔ سابق اور حاضر سروس اسرائیلی فوجیوں پر مشتمل یہ تنظیم آئی ڈی ایف میں مبینہ طور پر غلط کاموں کو بے نقاب کرتی ہے۔

گیواتی کہتے ہیں ان کو یہ سن کر قطعاً حیرت نہیں ہوئی کی آئی ڈی ایف کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود زیادتیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

ان کے خیال میں اسرائیل میں دائیں بازو کی سیاسی بیان بازی اس رویے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو ان اقدامات کا جواب نہیں دینا پڑتا۔ ’انھیں حکومت کے اعلیٰ ترین وزرا کی طرف سے حوصلہ افزائی اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔‘

گیواتی کہتے ہیں یہ اسرائیلی فوج کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

’جب فلسطینیوں کی بات آتی ہے تو اسرائیل فوج کی ذہنیت یہ ہے کہ وہ صرف ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ وہ انسان نہیں ہوتے۔ فوج آپ کو اس طرح برتاؤ کرنا سکھاتی ہے۔‘

سنہ 1967 میں غربِ اردن اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے اسرائیل نے اب تک 160 بستیاں آباد کی ہیں جہاں تقریباً سات لاکھ یہودی آباد ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی اکثریت کی نظر میں یہ آبادیاں غیر قانونی ہیں لیکناسرائیل اس سے متفق نہیں۔

بی بی سی نے جن 45 سوشل میڈیا ویڈیوز اور تصاویر کا جائزہ لیا، وہ سب کفیر بریگیڈ کے 11 سپاہیوں نے پوسٹ کی تھیں۔

یہ آئی ڈی ایف کی سب سے بڑی انفینٹری بریگیڈ ہے جو بنیادی طور پر غربِ اردن میں کام کرتی ہے۔ ان تمام سپاہیوں نے سوشل میڈیا پر اپنی شناخت چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔

ان سپاہیوں میں سے چار کا تعلق کفیر بریگیڈ کی ریزروسٹ بٹالین سے ہے۔ ان کی سوشل میڈیا کی ویڈیو کے تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بٹالین غربِ اردن کے شمالی حصے میں کام کرتی ہے۔

جب آئی ڈی ایف سے پوچھا گیا کہ آیا ان فوجیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی تو ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

بی بی سی نے ان فوجیوں سے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کے سامنے تحقیقات کے نتائج رکھے جا سکیں تاہم ان میں ایک نے بظاہر ہمیں بلاک کر دیا جبکہ دیگر نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ان فوجیوں میں سے سب سے زیادہ پوسٹیں یوہائی وازانا نامی ایک سپاہی نے شیئر کی ہیں۔

وازانہ کی بیشتر ویڈیوز رات کے اوقات میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ان ویڈیوز میں ان کی بٹالین کو رات کے وقت فلسطینیوں کے گھروں میں داخل ہوتے اور انھیں حراست میں لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیوز میں سپاہیوں کو ان افراد کے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں پر پٹی باندھتے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ خواتین کو ان کے سروں پر سکارف کے بغیر فلمایا جا رہا ہوتا ہے جس کے باعث ان میں سے اکثر گھبراہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔

یوہائی وازانا نے فیس بک اور ٹک ٹاک پر ایسی 22 ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی ہیں، جن میں فلسطینیوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔

ٹک ٹاک نے تصدیق کی ہے کہ دو ویڈیوز، جن کی ہم نے نشاندہی کی تھی اور جنھیں اس پلیٹ فارم سے نہیں ہٹایا گیا تھا، اب گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی پر ہٹا دی گئی ہیں۔

ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’ہم ایسے مواد کو برداشت نہیں کرتے جس میں پرتشدد واقعات کے متاثرینکی تذلیل کی گئی ہو۔‘

فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے وضاحت کی ہے کہ وہ اس مواد کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے والی ایسی کسی بھی ویڈیو کو ہٹا دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

اس تصویر میں، جو یوہائی وازانا کی ایک ویڈیو کا سکرین شاٹ ہے، میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی بٹالین کے اراکین زبردستی ایک گھر میں گھستے ہیں اور ایک فلسطینی خاتون کے سامنے کھڑے ہو کر تصویر کھنچواتے ہیں جن کے ساتھ ایک بچہ بھی ہے۔

اوفر بوبرو نامی سپاہی یوہائی وازانا کی بہت سے تصاویر میں نظر آتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز میں اکثر ایک ہیش ٹیگ نظر آتا ہے ’9213‘ جس سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ وازانا کی بٹالین سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

اوفر کی بنائی گئی ویڈیوز میں زیادہ تر سپاہیوں کے ناچنے اور پارٹی کرنے کے علاوہ گشت کے لیے تیاری کرنے اور روزمرہ زندگی کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔

12 فروری کو ٹک ٹاک پر پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو میں زمین پر لیٹا ایک قیدی نظر آتا ہے جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہوئی ہے اور اس کے پیچھے ایک اسرائیلی فوجی جھنڈا اٹھائے کھڑا ہے۔

سیمی بین کے آن لائن نام سے ایک اور فوجی فلسطینی قیدیوں کی آٹھ ویڈیوز اور ایک تصویر انسٹاگرام پر لگا چکا ہے۔

زیادہ تر فلسطینی قیدیوں کو باندھا ہوا ہوتا ہے جن کی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ کر زمین پر لیٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے، ان کے ہاتھ پیچھے کی جانب بندھے ہوئے ہوتے ہیں، جو ایسی پوزیشن ہے جسے عسکری اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ’سٹریس پوزیشن‘ کہتے ہیں۔

سیمی بین نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا ہے کہ انھوں نے ’دہشت گردوں‘ کو پکڑا اور انھیں حماس کے جھنڈے ملے۔

یاد رہے کہ امریکہ، برطانیہ اور چند دیگر ممالک کی طرح اسرائیل نے بھی حماس کو ’دہشت گرد‘ تنظیم کا درجہ دے رکھا ہے۔

ایک ویڈیو میں سیمی بین جو غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں، دو قیدی فلسطینیوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور انھیں حکم دیتے ہیں کہ وہ عبرانی زبان میں ایک نعرہ لگائیں جس کا مطلب ہے کہ ’اسرائیل کے لوگ جیتے رہیں۔‘

اوری ڈاہباش بھی اسی اسرائیلی فوجی بٹالین کے ایک رکن ہیں جنھوں نے غرب اردن میں عسکری کارروائیوں کی فوٹیج سوشل میڈیا پر لگائی۔ ان میں ایک ایسے قیدی کی تصویر شامل ہے جو وازانا نے بھی شیئر کی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے جو مواد پوسٹ کیا گیا، وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی شمار کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر مارک ایلس انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے فوٹیج میں نظر آنے والے واقعات کی تفتیش کا مطالبہ کیا اور اسرائیلی فوج سے کہا ہے کہ وہ ان فوجیوں کے خلاف کارروائی کرے۔

انسانی حقوق پر کام کرنے والے وکیل سر جیوفری نائس، ڈاکٹر ایلس سے اتفاق کرتے ہیں تاہم ان کو اس بات کا یقین نہیں کہ کسی کے خلاف کارروائی بھی ہو گی۔

بی بی سی کی تفتیش کے ردعمل میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ ’آئی ڈی ایف اپنے فوجیوں کو ایک پیشہ ورانہ معیار پر پرکھتی ہے اور جب ان کا رویہ ہماری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا تو تفتیش کی جاتی ہے۔ ایسا رویہ جو ناقابل قبول ہوتا ہے، اس کے لیے فوجیوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور ان کو معطل بھی کر دیا جاتا ہے۔‘

اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ ’فوجیوں کو ہدایات ہیں کہ وہ عسکری کارروائیوں کی فوٹیج سوشل میڈیا پر جاری کرنے سے گریز کریں۔‘

تاہم اسرائیلی فوج کی جانب سے اپنے جواب میں اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا کہ بی بی سی کی جانب سے ماضی میں سوشل میڈیا پر ایسے ہی رویے پر اس نے کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

غرب اردن میں سابق اسرائیلی کمانڈر جیواٹی کا کہنا ہے کہ وہ فوجیوں کی جانب سے قیدیوں سے ہونے والے سلوک پر شرمندہ بھی ہیں اور اس سے نفرت بھی کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان سے ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا ہم خود سے ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کا رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیلی معاشرہ فلسطینیوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے کے دعووں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

’اگر ہم نے اسی رویے کو جاری رکھا تو بطور معاشرہ ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.