’نوکری چاہیے تو گائے کی آواز نکالو‘: وہ عجیب و غریب انٹرویوز جن میں امیدواروں سے ’کہنیوں کے بل چلنے‘ کا کہا گیا

انٹرویو کے دوران عجیب و غریب رویوں کا سامنا کرنے والی لائی تنہا نہیں ہیں۔ بھرتیوں سے متعلق ایک ایجنسی ہیز کا کہنا ہے کہ نئی نوکری کے حصول کے لیے آنے والے تقریباً نصف لوگوں کا تجربہ انٹرویو کے حوالے سے برا ہی ہوتا ہے۔
انٹرویو
Getty Images

برسٹل کی رہائشی لائی اس دن نوکری کے لیے انٹرویو دینے ایک وکیل کے دفتر میں بروقت پہنچیں تھی مگر پھر 20 منٹ کے بعد ان کے انٹرویو کو کینسل کر دیا گیا اور انھیں اگلے دن دوبارہ آنے کو کہا گیا۔ وہ پریشانی کی حالت میں وہاں سے چلی گئیں بعدازاں انھیں ایک پیغام ملا کہ انٹرویو کا کینسل کیا جانا دراصل ایک امتحان تھا اور وہ اس میں فیل ہو گئی ہیں۔

اور یوں انھیں وہ نوکری نہیں ملی۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ بہت ہی عجیب تجربہ تھا اور اس سے انھیں ذاتی بزنس شروع کرنے کا حوصلہ ملا۔ اپنے کاروبار میں وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ کسی کو نوکری پر رکھنے کے معاملے میں دو ٹوک اور واضح رویہ اختیار کریں۔

انٹرویو کے دوران عجیب و غریب رویوں کا سامنا کرنے والی لائی تنہا نہیں ہیں۔ بھرتیوں سے متعلق ایک ایجنسی ہیز کا کہنا ہے کہ نئی نوکری کے حصول کے لیے آنے والے تقریباً نصف لوگوں کا تجربہ انٹرویو کے حوالے سے برا ہی ہوتا ہے۔

بی بی سی نے اس حوالے سے درجنوں افراد سے ان کے برے اورعجیب وغریب انٹرویوز کی کہانیاں سنیں۔

حال ہی میں خبر سامنے آئی ہے کہ برطانوی ڈیپارٹمینٹل سٹور جان لیوز بھرتیوں کے عمل میں تبدیلی لارہی ہے۔ اب امیدواروں انٹرویو کے سوالات پہلے ہی دیکھنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس کا مقصد انٹرویو کے عمل کو مزید شفاف بنانا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک برے انٹرویو سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اور انٹرویو کرنے والا اور دینے والا دونوں ایسا کیا کرسکتے ہیں کہ انٹرویو متنازع نہ بنے۔

لائی کی طرح ایکسن فو کا بھی انٹرویو کا بہت عجیب تجربہ رہا۔ انھوں نے ایک یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ ایمبیسیڈر کے عہدے کے لیے درخواست دی تھی۔ ایک گروپ انٹرویو کے دوران تمام امیدواروں کو کہا گیا کہ وہ اپنے ہاتھ کے پنجوں اور کہنیوں کے بل رینگیں اور گائے کی آواز نکالیں۔

وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ انھیں تین سے چار منٹ تک ایسا کرنا پڑا۔ ’اس وقت مجھے بہت بُرا لگا۔ وہ سب بہت نامناسب تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایسا کرنا پڑا کیونکہ سب ہی کر رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے کہا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ آیا امیدوار خوش مزاج ہیں کہ نہیں۔لیکن فو کو شبہ ہے کہ شاید کسی کو اختیارات کا تھوڑا سا نشہ چڑھ گیا تھا۔

’تو آپ کے خیال میں آپ کے پاس کتنے سال باقی ہیں؟‘

جولی کا تعلق امریکہ کی ریاست میسوری سے ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے سیکھا کہ بعض اوقات انٹرویو لینے والے کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ انٹرویو دینے والے کیسا محسوس کرتے ہیں۔

2022 میں انھوں نے پارٹ ٹائم کاپی رائٹر کی نوکری کے لیے ایک ویڈیو انٹرویو دیا تھا۔

جولی کے مطابق پہلے تو انھیں لگا کہ سب کچھٹھیک ہو رہا ہے۔ ’مجھے لگا میں تمام امیدوں پر پورا اتر رہی ہوں۔ لیکن آخر میں انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کے پاس کتنے سال باقی ہیں؟‘

جولی نے کہا ’میں ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں ہوں اور جلد ریٹائر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

عمر وہ واحد تعصب نہیں جس کا لوگوں کو نوکری یا ملازمت کے لیے انٹرویوز کے دوران سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پرل کیسرے ایک مارکیٹنگ مینیجر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میلان کے ایک فیشن برانڈ میں پبلک ریلیشن کی ایک ریموٹ جاب کے انٹرویو کے دوسرے راؤنڈ میں ان سے ان کی وراثت کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔ پرل کیسرے لندن میں رہتی ہیں۔ انھوں نے بچپن میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یوگنڈا چھوڑ کر یورپ میں رہائش احتیار کرلی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ کمپنی انھیں ان کے پس منظر کی وجہ سے انھیں برطانیہ کے بجائے یوگنڈا کی اجرت کے مطابق تنخواہ دینے پر بضد تھی۔

اس کے بعد پرل نے اپنی درخواست واپس لینے کو ترجیح دی۔

پرل کہتی ہیں کہ ’آپ کہاں سے ہیں،اس پرآپ کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔‘پرل کہتی ہیں کہ اس واقعے کے بعد سے وہ خود جب بھی لوگوں کے انٹرویوزلیتی ہیں تو سوالات بہت سوچ سمجھ کے پوچھتی ہیں۔

یہ عین ممکن ہے کہ بعض اوقات یہ تعصب محض اتفاقاً یا حادثاتی بھی ہو سکتا ہے مگر اس سے بھی انٹرویو دینے والے مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔

ٹام (فرضی نام) ایک آئی ٹی انجینئر ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے ویئر ہاؤس اسسٹنٹ کی نوکری کے انٹرویو کے دوران رسمی بات چیت کرنے کے بجائے انھیں سوالات کے جوابات فلمانے کے لیے کہا گیا تھا۔

ٹام کو آٹسٹک سپیکٹرمڈس آرڈر ہے تاہم وہ اس بارے میں لوگوں کو بتانا پسند نہیں کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انٹرویو کے دوران انھیں واضح ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ آمنے سامنے بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ فلم بندیایک بالکل ہی مختلف عمل ہے۔ انھیں وہ کمپیوٹر سے بات کرنے جیسا محسوس ہوا۔

’کیا آپ کے بچے ہیں؟‘

جاب
Getty Images

کئی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بھرتی کے دوران انھیں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ہائرنگ پلیٹ فارم اپلائیڈ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک عورت سے پوچھا گیا کہ آیا ان کے بچے ہیں، یا وہ ملازمت کے دوران بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟

ایسے ہی افراد میں سے ایک اپلائیڈ کی چیف ایگزیکٹو کیتھی سندرم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان سے یہ سوال اتنی بار پوچھا گیا وہ اس کی گنتی بھول گئی ہیں۔

آجروں کے لیے امیدواروں سے ان کی ازدواجی حیثیت، بچوں کی تعداد یا مستقبل میں بچے پیدا کرنے سے متعلق پوچھنا غیر قانونی ہے۔ اپلائیڈ اس کے باوجود سینئرپوسٹ کے لیے درخواست دینے والی ہر پانچ میں سے دو خواتین کو ان سوالات کا سامنا پڑا ہے۔

کیتھی سندرم کہتی ہیں کہ اس کی ایک وجہ حمل کے دوران آنے والے اخراجات ہیں جو کمپنیوں کو ادا کرنے پڑ سکتے ہیں۔ ’تنخواہ جتنی زیادہ ہوگی، آپ کو زچگی کے دوران اس ہی حساب سے میڈیکل کور ادا کرنا پڑے گا اور وہ اس پریشانی سے بچنا چاہتے ہیں۔‘

مگر تعصب واحد وجہ نہیں جس کی وجہ سے بھرتی کا عمل خراب ہوتا ہے۔ کیتھی سندرم کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ اچھے انٹرویو کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہے۔

انٹرویو لینے والوں کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ وہ ہر امیدوار سے ایک جیسے سوالات پوچھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انٹرویو لینے والوں کو سوالات ترتیب دیتے ہوئے ہر طرح کے امیدواروں کو مدِ نظررکھیں۔

ایکسن فو کہتی ہیں کہ ان کے تجربے نے انھیں سکھایا کہ انٹرویوزمیں کیسے اپنی بات کو سامنے رکھا جائے، خاص طور پر اگر انٹرویو لینے والے ان سے کوئی ’عجیب و غریب، غیر معقول‘کام کرنے کو کہا جائے جیسے کہ گائے کی طرح آواز نکالنا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.