75 ہزار سال قدیم خاتون کے چہرے کی دوبارہ تشکیل: ہمارے قدیم رشتہ دار کیسے دکھائی دیتے تھے؟

جس کھوپڑی پر یہ ماڈل مبنی ہے وہ عراقی کردستان کے شنیدر غار سے ملی ہے۔ یہ ایک مشہور جگہ ہے جہاں 1950 کی دہائی میں کم از کم 10 نینڈرتھل مردوں، عورتوں اور بچوں کی باقیات دریافت ہوئی تھیں۔

آپ کو کیسا محسوس ہو گا کہ اگر آپ کی ملاقات زمین پر بسنے والے آپ کے 75 ہزار سال قدیم رشتہ دار سے کروا دی جائے؟

سائنس دانوں نے ایک ’نینڈرتھل‘ (قدیم انسان) خاتون کا چہرہ دوبارہ تشکیل دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب ہزاروں برس قبل وہ زندہ تھیں تو کیسی نظر آتی تھیں۔

واضح رہے کہ ’نینڈرتھل‘ پتھر کے زمانے کے دوسرے مرحلے میں یورپ اور مغربی ایشیا میں پائے جانے والے انسان نما تھے جن کی جسمانی اور ذہنی ساخت آج کے انسان سے قدرے مختلف تھی۔

’نینڈرتھل‘ خاتون کا یہ چہرہ یہ ایک کھوپڑی کی چپٹی اور ٹوٹی پھوٹی باقیاتکی مدد سے بنایا گیا ہے۔ کھدائی کے دوران ملنے والی اس خاتون کیہڈیاں اتنی نرم تھیں کہ جیسے چائے میں بھیگا ہوا بسکٹ۔

محققین کو ان کی ہڈیوں کو جوڑنے سے قبل مضبوط کرنا پڑا تھا جس کے بعد ماہرین نے اس کا تھری ڈی ماڈل تیار کیا ہے۔

قدیم خاتون کا تخلیق کردہ یہ چہرہ نیٹ فلکس کے لیے بی بی سی سٹوڈیوز کی ایک نئی دستاویزی فلم ’سیکریٹس آف دی نینڈرتھلز‘ میں دکھایا گیا ہے۔ اس فلم میں جاننے کی کوشش کی گئی کہ ہم صدیوں قبل کھو جانے والے ارتقائی کزنز کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ یہ قدیم انسان تقریباً 40 ہزار سال قبل روئے ارض سے معدوم ہو گئے تھے۔

’نینڈرتھل‘ خاتون کا چہرہ دوبارہ تشکیل دینے کے پراجیکٹ سے منسلک ماہر حیاتیات ڈاکٹر ایما پومرائے کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں وہ ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتیں ہیں کہ نینڈرتھل کون تھے۔‘

انھوں نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی فرد کی باقیات کے ساتھ کام کرنا انتہائی دلچسپ اور بہت بڑا اعزاز ہے۔‘

’نینڈرتھل‘ خاتون کی کھوپڑی عراقی کردستان کے شنیدر غار سے ملی تھی۔

یہ ایک مشہور جگہ ہے جہاں 1950 کی دہائی میں کم از کم 10 نینڈرتھل مردوں، عورتوں اور بچوں کی باقیات دریافت ہوئی تھیں۔

سنہ 2015 میں جب کرد حکام کی جانب سے ایک برطانوی گروپ کو یہاں مدعو کیا گیا تو انھوں نے جلد ہی ایک نیا ڈھانچہ دریافت کیا جسے ’شنیدر زیڈ‘ کا نام دیا گیا، اس ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی، کندھے، بازو اور ہاتھ موجود تھے ، اس کی کھوپڑی بھی بڑی حد تک سالم تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ دو سینٹی میٹر موٹی پرت میں تبدیل ہو گئی تھی۔

شنیدر میں ہونے والی نئی کھدائی کی سربراہی کرنے والے کیمبرج کے پروفیسر گریم بارکر کا کہنا ہے کہ ’کھوپڑی بنیادی طور پر پیزا کی طرح چپٹی ہو چکی تھی۔‘

’اس سے لے کر اب آپ جو دیکھ رہے ہیں اس تک پہنچنا ایک حیرت انگیز سفر ہے۔ ماہر آثار قدیمہ کی حیثیت سے آپ کبھی کبھی اس کام سے بیزار ہو سکتے ہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں، لیکن ہر بار آپ کو یہ حقیقت پُرجوش کر دیتی ہے کہ آپ ماضی کو چُھو رہے ہیں۔ ہم بس بھول جاتے ہیں کہ یہ کتنی غیر معمولی چیز ہے۔‘

آثار قدیمہ کے مقامی محکمہ کی اجازت سے خاتون کے کھوپڑی کے ٹکڑوں کو برطانیہ لایا گیا تاکہ انھیں مستحکم کیا جا سکے اور اس کی بنیاد پر اس کی دوبارہ تشکیل کے مشکل عمل کو شروع کیا جا سکے۔

اس پیچیدہ پہیلی کو مکمل ہونے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا۔

اس کے بعد دوبارہ تشکیل دی گئی کھوپڑی کو سکین کیا گیا اور اس کا ایک تھری ڈی پرنٹ ڈچ فنکاروں ایڈری اور الفونس کینس کو دیا گیا۔ وہ ہڈیوں اور فوسل باقیات سے قدیم لوگوں کی تصویر کشی کرنے کی اپنی مہارت کے لیے مشہور ہیں۔

اگرچہ یہ مجسمہ بہت دلچسپ ہے اور اس کے چہرے پر غور و فکر کے تاثرات بھی موجود ہیں لیکن اصل ڈھانچہ اس سارے معاملے میں اصل اہمیت کا حامل ہے۔

ٹیم کو پورا یقین ہے کہ ’وہ ایک خاتون ہیں۔‘

چونکہ جنس کا تعین پیٹ کے نچلے حصے کی ہڈیوں سے ہوتا ہے تاہم یہ ہڈیاں ملنے والی باقیات کے ساتھ بازیافت نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے بجائے محققین نے اُن کے دانتوں کے حصوں میں پائے جانے والے پروٹین پر انحصار کیا ہے جن کا تعلق خواتین کی جینیات سے ہوتا ہے۔ ہڈی کے ڈیل ڈول نے بھی جنس کی تشریح کی توثیق کی۔

ان کی عمر کیا تھی؟ وہ شاید40 کی دہائی کے وسط میں فوت ہو گئی تھیں۔ ان کی عمر کا اندازہ بھی ایک بار پھر اُن کے دانتوں سے ہوتا ہے جو تقریبا جڑوں تک ٹوٹ چکے تھے۔

ڈاکٹر پومرائے کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس دانتوں کی خراب صحت کے کچھ دیگر اشارے ہیں۔ کچھ انفیکشن، کچھ مسوڑھوں کی بیماری بھی۔ اس وقت تک، مجھے لگتا ہے کہ وہ زندگی کے قدرتی اختتام کو پہنچ رہی تھیں۔‘

ایک طویل عرصے تک، سائنس دان نینڈرتھل کو ہماری نسل کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے انھیں سخت جان اور قدیم سمجھتے تھے۔

لیکن شنیدر میں ہونے والی دریافتوں کے بعد سے یہ نظریہ بدل گیا ہے۔

یہ غار کسی قسم کی تدفین کے مقام کے طور پر مشہور ہے۔ لاشوں کو احتیاط سے ایک اونچی چٹان کے ستون کے بغل میں واقع ایک مقام میں رکھا گیا تھا۔ تمام مرنے والوں کو ایک ہی طرح رکھا گیا تھا۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ان نینڈرتھلز کے ساتھ پھول بھی دفن کیے گئے تھے جو شاید روحانیت یا اُن کے مذہب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

لیکن برطانوی ٹیم کا خیال ہے کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس مقام پر موجود پولن بعد میں مکھیوں نے چھوڑا تھا، یا شاید پھولوں کی شاخوں سے آیا جو لاشوں کے اوپر رکھی گئی تھیں۔

لیورپول جان مورس یونیورسٹی کے پروفیسر کرس ہنٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ شاخیں پھولوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ شاید اس لیے بھی رکھی ہو سکتی ہیں تاکہ لاشوں کو لگڑ بھگوں یا جانوروں سے بچایا جا سکے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں تدفین کا لفظ استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کروں گا۔ مجھے لگتا ہے انھیں (سطح زمین پر) رکھا گیا تھا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھوں نے اس روایت کو برقرار رکھا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.