پہلی پوزیشن

اسکول کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے. ہر طرف طلباء اور ان کے والدین کلاس کی نسبت سے اپنے بچوں کے حتمی نتائج حاصل کرنے کے منتظر ہیں- جیسے جیسے نتائج کا اعلان ہو رہا ہے، طلباء اپنے نتائج حاصل کر رہے ہیں
ویسےویسےمیرا دل عجیب طرح سے دھڑک رہا ہے کیونکہ آج میرے بچوں کے نتائج کا اعلان بھی ہونا ہے ۔ لیجئے جناب جملہ کلاس کا اعلان کیا جانے لگا اور کامیاب طلباء کا نام لیا جا نے لگا.

سب سے پہلے تیسری پوزیشن پر آنے والے بچے کے نام کا اعلان کیا گیا۔ بچے اور اس کے والدین خوشی سےکھڑے ہو گئے ۔ تالیوں کی گونج میںبچہ خوشی خوشی اپنا نتیجہ لینے سٹیج کی طرف بڑھا۔ سٹیج پر پُہنچا ، پرنسپل نے ہاتھ بڑھایا، بچے کو مبارکباد دی اور رزلٹ شیٹ اس کے حوالے کر دی۔ بچے نے خوشی اور فاتحانہ انداز میں حاضرین کی طرف دیکھا۔ جہاں بچے کے والدینآنکھوں میں خوشی کی نمی لیےکھڑے ہو کر پزیرائی کر رہے تھے۔ بچہ مسکراتے ہوئے اپنا رزلٹ شیٹ لے کر اسٹیج سے نیچے اتر آیا۔ والدین خوشی سے سرشار آگے آئے اور اپنے بچوں کو بانہوں میں لے کر خوب پیار کیا۔

ایک بار پھر ہال میں سناٹا چھا گیا اب دوسری پوزیشن کا اعلان کیا جا رہا تھا اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک اور بچے اور والدین نے خوشی کا بھر پور اظہار کیا۔

لیجئے جناب اب اس موقع کا انتظار تھا جب پہلی پوزیشن کا اعلان ہونا تھا۔ ہر بچہ اور اس کے والدین دل تھام کے بیٹھے تھے۔ ہمارے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔ کانوں میں اپنے بچے کے نام کا اعلان خود بخود سنائی دے رہا تھا ۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی بچے کا نام لیا جائےگا۔ اور ہم 'یا ہو' کا نعرہ بلند کریں گے ۔ اور پھر بچہ مسکراتے ہوئے سٹیج کی طرف بڑھے گا۔ اور سٹیج پر کھڑے ہو کر چاروں طرف حاضرین کی طرف دیکھے گا۔ اور ہم خوشی سے اپنے دونوں ہاتھ ہلائیں گے اور خوب تعریف کریں گے۔ اور لڈھی ڈالیں گے۔

اعلان کرنے والی خاتون نے جان بوجھ کر بہت توقف کیا۔ سسپنس بڑھانے کے لیے وہ بار بار کہتی ’’اور پہلی پوزیشن ہے‘‘۔”سامعین اور حاضرین اس کی اس حرکت پر محظوظ بھی ہوتے اور جلدی جلدی کی گردان بھی کرتے لیکن ہمارا دل کر رہا کہ چیخیں اور کہیں ارے مت کھیلو ہمارا دل سے- تو پھر بالآخر اعلان ہوا اور بچے کا نام لے ہی لیا گیا - ہم تو اپنی سیٹ سے ہی پورا اٹھ گئے. لیکن جب کانوں میں آواز آئی تو پتہ لگا ہمارا نہیں کسی اور بچے کا نام پکارا جا رہا تھا کہ پہلی پوزیشن لی ہے،ہم نے دیکھا اس بچے کے والدین خوشی سے سرشار اور سرور میں تھے اور پھر وہی سب کہ بچہ خوشی خوشی اسٹیج کی طرف چل پڑا

ہماری زوجہ محترمہ نے ہاتھ پکڑ کر ہمیں کرسی پر بٹھایا کیوں کہ میں ابھی تک کھڑا منظر ہی دیکھ رہا تھا اور پھر کان میں سرگوشی کی “کوئی بات نہیں انشاء اللہ اگلے سال بچے اور محنت کریں گے اور پوزیشن لائیں گے. میں نے مسکرا کر انہیں دیکھا اور دل سے کہا انشاء اللہ

میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ پہلی پوزیشن کیا ہے؟ ۔ اس میں ایسا کیا نشه ہے کہ دنیا کے تمام ماں باپ اپنے بچوں کے لیے صرف پہلی پوزیشن ہی چاہتے ہیں اور کیوں جب وہ مقصود پوزیشن نہیں لے پاتے تو اندر سے بہت ٹوٹ پھوٹ ہو جاتے ہیں. دل مسوس جاتے ہیں

میں یہ تو نہیں کہہ رہا کہ اگر بچہ پہلی پوزیشن نہیں لے رہا تو وہ کوئی نالائق ہے
یامحنت نہیں کی ہوگی

ہرگزنہیں

بچے کی پوزیشن کوئی بھی ائے نمبر کم ہوں یا زیادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسکو ہر طرح سے سراہا ہی جانا چاہیے اور جو کے ہر اچھے ماں باپ اور انکے گھر والے کرتے ہی ہیں پورے اھتمام کے ساتھ دعوتیں کی جاتیں ہیں اور کی جانی چاہیے۔

ہر سال رزلٹ کے بعد ماں باپ بچوں کو خوب پیار کرتے ہیں انکو گلے لگا لگا کے شاباش دیتے ہیں
شاید کچھ ایسے ماں باپ بھی ہوتے ہیں جو بچوں کو اچھی پوزیشن نہ آنے پر ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں کسی دوسرے بچہ سے نسبت بھی ملا تے ہوئے کہتے ہیں کہ فلاں کا بچہ فلاں پوزیشن آگیا تم کیوں نہیں آسکتے ۔ اور بہت کچھ

اثبات میں ہلتے سر میں اس تحریر لکھتے ہوئے بھی محسوس کر سکتا ہوں

لیکن آج یہاں میرا سوال یہ نہیں ہے کہ بچوں کو اچھی پوزیشن نہ آنے پر سراہاجانا چاہیے یا نہیں۔
سوال یہ بھی نہیں ہے کہ بچے کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں یا کیا ہونا چاہیے۔
سوال یہ بھی نہیں ہے کہ بچوں کے اس ردعمل کو والدین کو کیسے نمٹنا کیسےہینڈل کرنا پڑتا ہے۔
ان مسائل پر دنیا بھر میں روزانہ 2000 مضامین لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔دنیا کے ہر والدین کو یہ سمجھانے کے لیے ماہر نفسیات 2 , 2 گھنٹے کے لیکچر دیتے ہیں۔

لیکن آج میرا یہ سوال ھی نہیں ہے۔

میرا سوال ایک باپ کے اندر بننے والی سوچ اور اسکی ٹوٹ پھوٹ کا ہے اسکی خواہشات اور تسکین کا ہے
شاید اسی لیے سارا سال والدین اپنی اپنی ضرورتوں کو مار کر، اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو جب اچھی سے اچھی تعلیم کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور کبھی کبھی نامصائب حالات کے باوجود ٹیوشن فیس، کتابوں، اور یونیفارم کے اخراجات کے لیے زِندگی کی دھوپ چھاؤں سے روزانہ لڑ رہے ہوتے ہیں تو بس یہی سوچتے رہتے ہیں کہ بچہ اس دفعہ اچھی پوزیشن لے کر ائے گا اور جب وہ اسٹیج کی سیڑھیوں پر چڑھ رہا ہوگا تو ماں کی قربانیوں اور باپ کے پسینہ کی ایک ایک بوند خشک ہو جائے گی اور بچہ کے پاؤں کے نیچے گزرتی ہر سیڑھی ماں باپ کی خوشیوں کی طرف لےجائے گیاور یہی امید انہیں کبھی تھکنے نہیں دیتی

غالباً نہ کسی ماہر نفسیات نے اور نہ کسی فلسفی نے ان بیتابیوں پر گرتی اوس پر کبھی لکھا ہوگا اور نہ کبھی کسی فورم کا موضوعسخن ہوا ہوگا ۔
بہرکیف ماں باپ کا کیا ہے - ایسا نہیں ہے کہ اگر جو سوچا تھا وہ نہ ہوا تو کوئی بڑا طوفان آجاتا ہےیا پھر وہ مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہوں گے-
ماں باپ اگلے سال پھر سے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں
ایک نئی آس، ایک نئی امید اور ایک نئے یقین کے ساتھ کہ اگلے سال ائے گی نہ ہمارے بچے کی بھی

پہلی پوزیشن
بیحد شکریہ

Shakeel Akhter
About the Author: Shakeel Akhter Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.