“ حالیہ ایران اور اسرائیل کشیدگی اس خطہ کے لیے قیامت نہ بن جائے”

ہفتہ کی رات ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والا حملہ اس سے کہیں زیادہ شدید تھا جس کی دنیا بھر میں توقع کی جا رہی تھی۔ کیونکہ ایران دمشق میں اپنے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کو اپنی خودمختاری کی کُھلم کُھلا خلاف ورزی سمجھ رہا تھا.

اور شاید اسرائیل اور امریکہ کا ارادہ بھی یہی تھا کہ وہ ایران کو خطے میں اسرائیلی اور امریکی مفادات پر اپنی علاقائی پراکسیوں (حزب اللہ اور حوثی) کے ذریعے نقصان پہنچانے کے بجائے کچھ آگے کا اقدام اٹھائے۔ جس کا اقدام اسرائیل نے امریکہ کی آشیرباد سے دمشق کے قونصل خانے پر حملہ کرکے ایران کو خلیج میں اپنے اثرورسوخ پر آگے بڑھنے پر روکنے کا اشارہ دیا.

اب تمام دنیا بالعموم اور مڈل ایسٹ بالخصوص اس پر نظر لگائے بیٹھا ہے کہ اب آگے کا اسرائیل اور اس کا اتحادی امریکہ کا وہ ایران پر کس حد تک اور کتنی شدت سے جوابی وار کرے گا اور وہ کس حد تک جاسکتے ہیں. چائینہ اور روس اس کو ایران کے حملہ کے بعد اور اگر اسرائیل کا جوابی وار پر ان دونوں سپر پاور کا کردار اس طرح کی خاموش ڈپلومیسی پر ہی اکتفا کریگا یا امریکہ کی طرح ایران کی مدد کے لیے منظر عام پر آکر اپنا کوئی کردار ادا کریگا. اسرائیل اور امریکہ کو روکنے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکے گا جو اس وقت اس خطہ پر ایک بڑی جنگ کے حالت منڈلارہے ہیں.
اگر اسرائیل اور امریکہ نے ایران پر جوابی وار کی تو ایران کے کے پاس اسرائیل کی طرح جدید ترین فضائی دفاعی نظام نہیں ہے اور اس کا نقصان ایران کو جس قدر ہوسکتا ہے وہ ایران کو بھی حملہ کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچا ہوگا اور اس کے بڑوں نے ایسے کوئی ضمانت دئی ہی ہوئیگی جو ایران نے اتنا بڑا اقدام کیا.

اس وقت خلیج کی صورتحال اور عرب ملکوں کے حکمرانوں کی فلسطین و غزہبپر اسرائیل کی وحشیانہ فسطائیت پر عرب حکمرانوں کی خاموشی پر عرب عوام کی اپنے حکمرانوں سے ناراضگی بھی اس وقت ایران کے حکمرانوں کے لیے ان کی خاموش حمایت بھی سمجھا جاسکتا ہے اور غزہ میں بیشتر مظلوم فلسطینیوں نے عرب سے اپنی ناراضگی کا کُھلم کُھلا اعلان بھی کیا اور ایران کی حمایت میں جزباتی نعرے اور ایران سے اپنے لگاؤ کا کُھلا مظاہرہ بھی کیا جس کا ادراک عرب حکمرانوں امریکہ کو باخوبی اس کا معلوم ہے اس صورتحال میں امریکہ کشیدگی کو ہر حد تک بڑھنے سے روکے گا اور ممکن ہے کہ وہ اسرائیلیوں کو جوابی ردعمل کو محدود کرنے پر مجبور کرے گا۔ امریکہ اور اسرائیل پر اقوام عالم کی جانب سے زور دیا جائے گا کہ وہ احتیاط سے آگے بڑھیں اور کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائی کو متناسب بنائیں۔ اس وقت مزید کشیدگی اس خطے کو حقیقی معنوں میں خطرناک صورتحال اور نامعلوم حدود تک لے جائے گی۔ اور عرب حکمرانوں کو بھی امریکہ کے پلیٹ فارم پر زیادہ دیر کھڑا ہونا ان کے لیے بھی مشکل سے مشکل تر نہ بن جائے.

اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے اس خوفناک صورتحال کا ایک بھیانک شروعات نظر آرہی ہیں. جو ایک ایسا معاملہ جو ایک وسیع علاقائی جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔

جبک اسرائیل کی فوج نے کا یہی کہنا ہے کہ انھوں نے ایران کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے ’بیشتر‘ میزائلوں اور خودکش ڈرونز کو مار گِرایا ہے۔ اگر اسرائیل اور امریکہ نے ایران کے ان میزائلوں اور ڈرونز حملوں کو ناکام بنادیا تو یہ ایران کے اتحادی چائینہ اور روس کے لیے بھی ایک خوفناک صورتحال کی شروعات ہوئینگی کیونکہ ایران کے ہاس یہ تمام ٹیکنالوجی ان ہی دو ملکوں کی ہے. اس سے امریکہ اور اسرائیل کا سینہ پھر ایک دفعہ چوڑا ہوجائیگا. اور وہ ایران کے لیے کافی مُشکلات کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اور آئندہ کے لیے ایران کو قابو میں رکھنے کے لیے کیا کچھ کرسکتا ہے.

یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والے ایک میزائل حملے کے نتیجے میں شام کے دارالحکومت دمشق میں واقع ایرانی سفارتخانے کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں متعدد پاسداران انقلاب کے افسران ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں خطے میں قدس فورس کے سب سے اعلی عہدیدار بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی بھی شامل تھے۔ اس حملے کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی بیشتر ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو ’ایرو‘ نامی فضائی دفاعی نظام اور خطے میں موجود سٹریٹیجک اتحادیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا گیا ہے۔

میزائیل حملوں کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی قوم سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ملک کی فوج ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے. جبکہ ایران نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر مزید حملے نہیں کرے گا تاہم اسرائیل یا امریکہ کی جانب سے کسی بھی جوابی کارروائی کی خوفناک نتائج ہوسکتے ہیں.

اس وقت تمام فریقین کو ان مُلکوں کو جنگ سے باز رکھنے کے لیے اقدام فورا اُٹھانا چاہیے. کونکہ یہ خطہ اب کسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اس خطہ میں کئ عرصہ سے ایک خاموش جنگ تو ویسے ہی چل رہی ہے مگر اب اس حقیقی جنگ کو تمام بڑی طاقتیں ، عرب حکمرانوں و یورپ و اقوام متحدہ و او آئی سی کو اپنا کردار آگے بڑھ کر کرنا چاہیے اگر اب بھی غزہ کی طرح خاموشی اختیار کی تو پھر اس خطے اور اس کی عوام کے لیے زندہ دفن درگو کے لیے تیار بیٹھنا چاہیے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 284 Articles with 93766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.